سان فرانسسکو کی لذیذ ’خمیری روٹی‘ جس کے چرچے پوری دنیا میں ہیں
سان فرانسسکو /لندن،اکتوبر۔سنہ 1848 میں جیمز ڈبلیو مارشل نے سان فرانسسکو سے شمال کی طرف پہاڑوں پر سونا دریافت کیا تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کر کے یہاں بسنا شروع ہوئے۔ایک سال کے اندر دسیوں ہزار مہاجرین اندرون اور بیرون ملک سے کیلیفورنیا شہر اور اس کے مضافات میں آ کر بسے اور اپنے ساتھ ضرورت کی چیزیں لے کر آئے جن میں کپڑے، ترکھان کے اوزار، کافی، چینی اور آٹا شامل تھا۔ تاہم ایک بنیادی چیز تھی جو شہر کی تاریخ کا ہمیشہ کے لیے حصہ بن گئی: وہ تھا بریڈ بنانے کا طریقہ۔ایک ایسی جگہ جسے غذائیت کی کمی کا سامنا تھا وہاں بریڈ کے لیے مرکب (ایسی لوئی یا گندھا ہوا آٹا جسے مْخمر کرنے کے لیے قدرتی طور پر پائے جانے والے بیکٹیریا اور خمیر کا استعمال ہوتا ہے) کیلیفورنیا میں سونے کی تلاش میں آنے والے ہجوم میں ایک نایاب چیز تھی، اس کا استعمال کرکے کان کن عام آٹے کو مزیدار اور بھرپور غذائیت والی بریڈ میں بدلتے تھے۔کسی وجہ سے باقی علاقوں کی نسبت وہاں کی بریڈ لذیذ اور ذائقہ میں ذرا تیز ہوتی تھی اور یوں سان فرانسسکو کی خمیری روٹی کی شروعات ہوئی۔ایک سو ستر سال سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے بعد سان فرانسسکو خمیری روٹی کی پہچان ہے۔ تازہ بنائی ہوئی بریڈ خریدنے کی خاطر لوگ روزانہ شہر کے مشن ڈسٹرکٹ میں ٹارٹائین بیکری، دی مل نامی بیکری جہاں سالم اناج کا خمیر بنتا ہے اور سان فرانسسکو کے مغرب میں مشہور کافی شاپ پینٹڈ لیڈیز کے باہر قطاریں بنائے کھڑے نظر آتے ہیں۔کسی بھی مقامی مارکیٹ میں داخل ہوں وہاں آپ کو بے ایریا کی ایکمی بریڈ اور سیمیفریڈیز کے خمیر بگیٹس ملیں گے۔ یا پھر آپ فشرمین وارف پر بوڈین بیکری کا چکر لگائیں جو سیاحوں کا مرکز ہے، وہاں کلیم نامی سمندری حیات کا گاڑھا شوربہ تازہ خمیر میں ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔گھروں میں یہ روٹی بنانے کا رواج دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے مگر خمیری روٹی بنانے کا مرکز اب بھی سان فرانسسکو ہی ہے۔جوزی بیکر جوزی بیکر بریڈ کے بانی اور دی مل کے شریک مالک کہتے ہیں کہ خمیر سان فرانسسکو کی تاریخ کا بہت بڑا حصہ ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کافی لوگوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہے کہ یہ یہاں سے بننا شروع ہوئی یا یہ کہ صرف سان فرانسسکو ہی وہ جگہ ہے جہاں یہ بنتی ہے۔ مگر یہ دونوں باتیں درست نہیں۔شہر میں یہ افواہیں گرم رہی ہیں کہ خمیر کے مخصوص ذائقے کی وجہ شہر میں سخت دھند اور ایک خاص قسم کے جنگلی بیکٹیریا کی افزائش ہے جو صرف سان فرانسسکو میں ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیلیفورنیا کے کانکن جو شمالی الاسکا اور کینیڈا سے کلونڈائیک میں سونے کی تلاش کے لیے گئے وہ وہاں سے اپنے ساتھ خمیر بنانے کے لیے درکار مرکب لائے، ان کا نام خود بھی خمیر پڑ گیا کیونکہ وہ ٹھنڈی راتوں میں اس مرکب کے ساتھ چمٹ کر سوتے تھے تاکہ یہ موثر رہے۔ یہ مرد حضرات اپنی تازہ ڈبل روٹی کے لیے مشہور تھے اور ساتھ ہی غذائیت کا خیال بھی رکھتے تھے۔یہاں بوڈین بیکری ہے جو سان فرانسسکو کا سب سے پرانا کاروبار ہے اور سنہ 1849 میں کاروبار کی شروعات سے آج تک خمیری روٹی بنا رہا ہے اس کا آغاز مارشل کی جانب سے سوٹرز مل میں سونا دریافت کرنے کے ایک سال بعد ہوا۔اس کے بانی سیڈور بوڈین جو ایک فرانسیسی تارک وطن تھے اور نانبائی کے بیٹے تھے انھوں نے بیکری میں استعمال ہونے والا اصل مرکب سونے کے ایک کان کن سے لیا تھا اور پچھلے 170 سال سے وہاں اْسی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ 1908 میں سان فرانسسکو میں آنے والے بڑے زلزلے کے دوران سیڈور کی اہلیہ نے اسے ضائع ہونے سے بچایا۔مگر ان سب کے باوجود خمیری روٹی صرف سان فرانسسکو تک محدود نہیں۔ درحقیقت یہ دنیا میں روٹی کی پرانی ترین قسم ہے۔ خمیر سے اْٹھی روٹی کی تاریخ ساڑھے چار ہزار سال پہلے مصر سے شروع ہوتی ہے۔سان فرانسسکو اور خمیری روٹی کے درمیان ایک اور تعلق: خطے کی دیرپا، اجزا پر مرکوز اخلاقیات۔ بیکر کہتے ہیں ’یہاں بے ایریا میں ہمارے پاس کھانے کی قیمت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ خمیری روٹی بنانے میں آپ کی عام بریڈ سے زیادہ محنت لگتی ہے اور یہ غدائیت سے بھرپور بھی ہے۔ میں ایسی بیکری کا ملک ہوں جہاں ثابت گندم سے خمیری روٹی بنائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر میں ملک کے بیشتر حصوں میں اسی طرح کی کوئی بیکری کھولنے کی کوشش کروں تو یہ اتنا نہیں چلے گی جتنا سان فرانسسکو میں چل رہی ہے۔‘لیکن یہ تمام روابط اور کہانیاں، خمیر کا تعلق سان فرانسسکو سے نہیں جوڑتیں۔ دراصل یہ روٹی کی سب سے قدیم اقسام میں سے ایک ہے – ایک خمیر شدہ اور آمیزش سے تیار آٹا جس کا تعلق کم از کم 4500 سال قدیم مصر سے جا ملتا ہے۔خمیری روٹی کو جو چیز خاص بناتی ہے وہ اس کا جنگلی خمیر اور مختلف اقسام کے بیکٹیریا سے تعلق ہے۔جوزی بیکر کے مطابق یہ ڈبل روٹی کس طرح تخلیق کی گئی اس بارے میں مختلف آرا ہیں۔ ایک ممکنہ کہانی جس پر یقین کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی نے دلیہ بنانے کی کوشش کی اور اس میں کم پسے ہوئے اناج کا استعمال کیا اور اسے کچھ دن کے لیے چھوڑ دیا۔اس دوران اس میں بلبلے سے بننے لگے اور اس میں سے کچھ عجیب سی بو آنے لگی۔ ممکن ہے کہ یہ سورج کی روشنی میں پڑی رہی ہو اور آخر کار پک کر ایک ایسی چیز بنی جو لذید بھی تھی اور اس سے پہلے اس کی جو صورت تھی اْس کی نسبت اس نئی شکل میں غذائیت بھی زیادہ تھی۔محقق فرینک سوگیہارا اور لیو کلائین سنہ 1970 میں اس کوشش میں نکلے کہ یہ جان سکیں کہ وہ کون سے لیکٹک ایسڈ کے مائیکروب ہیں جو دہی اور کمچی میں بھی پائے جاتے ہیں اور جو سان فرانسسکو کی خمیر کو اْس کا مخصوص ذائقہ دیتے ہیں۔وہاں ایک ایسے بیکٹیریا کا استعمال کیا جا رہا تھا جس کا باقاعدہ شمار نہیں کیا گیا تھا اس لیے اس کا نام سان فرانسسکو کے نام پر لیکٹوبیسیلیئس سان فرانسسکینسس رکھا گیا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ خاص وہاں کے بے- ایریا میں پایا جاتا ہے۔تاہم لیکٹوبیسیلیئس سان فرانسسکینسس تقریباً 90 اور ممالک میں بھی دریافت کیا گیا ہے اور وہاں پی ایچ تین اعشاریہ نو سے لے کر چھ اعشاریہ سات کے درمیان اس کی افزائش ہوتی ہے اور اس کے خمیر بننے کا عمل 20 ڈگری سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔لیکن قطع نظر اس کے کہ یہ کہاں بنی جوزی بیکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خمیر کا ذائقہ اس کی خاصیت ہے۔ اْن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ سان فرانسسکو کی خمیر کا مخصوص تیز ذائقہ اس میں موجود تیزابیت کی وجہ سے ہے جو اس میں ایسیٹک ایسڈ کی وجہ سے ہے۔ یہ خمیر اْٹھنے کے وقت اس میں پیدا ہوتا ہے۔لیکن پچھلے کچھ عرصے میں اس کے ذائقے میں ذرا تبدیلی آئی ہے کیونکہ بہت سے نانبائی (جوزی بیکر سمیت) خمیر میں تیزابیت کے تیکھے پن کو اس میں ڈلنے والے اناج سے توازن میں لا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس میں خمیر اْٹھنے کے عمل سے ذائقہ پیدا کریں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے بننے میں اناج زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسیٹک ایسڈ یا سرکے جیسا ذائقہ کم اور لیکٹک ایسڈ کی فرمینٹیشن کی طرح میٹھا ذائقہ زیادہ، جیسا کے دہی کا ہوتا ہے۔خمیر کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ آپ کے لیے بہت مفید ہے۔ اس میں موجود قدرتی بیکٹیریا اور خمیر انسان کے معدے کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور آٹے کو پہلے سے ہضم کر کے ہمارے ہاضمے کے نظام کو محنت سے بچاتے ہیں۔خمیر زیادہ دیر خراب نہیں ہوتی کیونکہ اس میں قدرتی طور پر ایسے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو اسے محفوظ رکھتے ہیں اور یہ خمیر کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والے نامیاتی مرکب کی وجہ سے بنتے ہیں۔ جوزی بیکر کہتے ہیں نظامِ انہضام کے لیے اچھا ہونا، اس کا دیر تک خراب نہ ہونا اور ذائقہ میرے خیال میں یہی چیزیں اسے قابل پسند بناتی ہیں۔جوزی بیکر نے ایک دہائی پہلے کام کی شروعات مشن ڈسٹرکٹ میں ایک اپارٹمنٹ کے باورچی خانے سے کی۔ انھوں نے اپنے ایک دوست سے خمیر بنانے کے لیے استعمال ہونے والا نامیاتی مرکب حاصل کیا جسے وہ آج بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب سی شکل کا مربہ تھا جس کی شروعات بس آٹے اور پانی سے ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ایک چیز جو انھوں نے بہت جلدی سیکھ لی وہ یہ تھی کہ خمیر بنانا غلطی سے مبرا نہیں جیسا کے عام خمیر والی ڈبل روٹی ہوتی ہے۔ اسے بنانے میں وقت لگتا ہے۔آپ اس کے لیے ابتدائی مرکب کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں جو جوزی بیکر کے مطابق یا تو خود پانی اور آٹے کو ملا کر تیار کر سکتے ہیں یا اسے کہیں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ گھر پر اپنی بریڈ بنانے والے یا بیکری والے آپ کو درخواست پر یہ مرکب دے سکتے ہیں۔بیکر کہتے ہیں ’ہم نے ہمیشہ بارٹر ٹریڈ کی ہے اور کچھ ایسا ہوتا تھا کہ لوگ ہمیں اپنی تخلیق کردہ ایک نظم دیتے تھے۔‘حال ہی میں ہم نے اسے سب کے لیے کھول دیا ہے تاکہ آپ جو چاہیں اس کی بارٹر ٹریڈ کریں۔ کچھ لوگ ہمیں بیئر کے چھ پیک دیتے ہیں، کچھ آئس کریم۔ ایک گاہک نے حال ہی میں ہمارے ساتھ ہاتھ سے تیار کردہ 100 پیپر کرینز کا سودا کیا۔وہ خشک مرکب سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو بڑے پیمانے پر بنائے جاتے ہیں مگر یہ اس کی غذائیت بڑھانے اور ذائقہ پیدا کرنے میں خاص مدد نہیں دیتا۔’مرکب جنگلی خمیر اور اناج پر موجود بیکٹیریا کو ملا کر متحرک ہوتا ہے اور اسے ایسے بڑھاتا ہے جس سے ان خصوصیات والی بریڈ بنتی ہے جیسی آپ چاہتے ہوں۔‘ایسا کرنے کے لیے بنیادی طور پر ایک چوتھائی کپ آٹا اور پانی ملائیں یعنی 35 گرام آٹا اور 60 گرام پانی اور پھر اسے ایک دن کے لیے چھوڑ دیں۔ پھر اس میں سے زیادہ تر پھینک دیں اور صرف تھوڑا سا رکھیں اور یہ عمل دہرائیں۔یہ عمل دو ہفتے تک دہرائیں اور یوں یقیناً صحت افزا اور متحرک خمیر بنانے کی شروعات کرنے کے لیے درکار مرکب تیار ہو جائے گا۔ اس میں بہت سے بلبلے بنیں گے اور یہ آسانی سے پانی کے ایک گلاس میں تیرے گا۔بازار میں مختلف قسم کے آٹے ملتے ہیں ہے مگر سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔جوزی بیکر کہتے ہیں کہ اگر آپ بلیچ کیا گیا عام سفید آٹا لیں جو کئی برسوں سے کسی گودام میں پڑا ہوا ہو تو اس بات کا امکان کم ہے کہ آپ غذائیت سے بھرپور متحرک مرکب تیار کر سکیں گے بنسبت سالم اناج کے جس میں وہ سب غذائیت موجود ہوتی ہے جو نہ صرف ہمارے جسم کے لیے اچھی ہوتی ہے بلکہ خوردبینی نامیات کو بھی پسند آتی ہے۔جوزی بیکر اپنے کام کے لیے سالم گیہوں سے بنایا گیا آٹا پسند کرتے ہیں جو امریکہ میں مخصوص دکانوں سے ملتا ہے۔آپ کے پاس جب اس بریڈ کی شروعات کرنے کے لیے مرکب موجود ہو تو اسے بنانے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے اور جوزی بیکر کے مطابق عموماً اس میں ایک سے دو دن لگتے ہیں۔اس کے لیے آپ کو بس ایک تھرمامیٹر، ایک ڈونگا اور ڈچ اوون (ایک ایسا برتن جو دھات کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس کا ڈھکن مکمل طور پر برتن کو بند کردیتا ہے) یا پتھر کی سِل کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک مکسر بھی آٹا گوندھنے میں مددگار ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں۔ جوزی بیکر کہتے ہیں کہ میرا مشورہ ہے کہ سب ہاتھوں سے کریں تاکہ سارے عمل کا صحیح سے اندازہ ہو سکے۔جوزی بیکر کے مطابق یہ سارا تجربہ ہی خمیری روٹی بنانے کے لیے اہم ہے۔ آج کل انسٹاگرام اور فیس بک کے دور میں دوسروں کی اچھی اچھی تصاویر تو دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی تصویروں کی چھوٹی سے دنیا سے باہر اس عمل میں ناکامیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔اسے بنانا صبر اور تحمل سیکھنے کا زبردست موقع فراہم کرتا ہے اور آپ اسے کسی کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں۔