روس اور جنوبی کوریا میں اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی کے باوجودپابندیوں میں نرمی
ماسکو/سیول،فروری۔تیزی سے پھیلتی اومیکرون وبا کے نتیجے میں روس اور جنوبی کوریا میں اس مرض پر کنٹرول کا کام بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔گزشتہ دو سال سے متعدی مرض سے نمٹنے کے اعتبار سیجنوبی کوریا کو ایک کامیاب ملک کادرجہ حاصل تھا، جب زیادہ تر مغربی ملکوں کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں مرض کا پھیلاؤ اور اسپتالوں میں داخلہ کی شرح مکمل طور پر کنٹرول میں تھی۔ایسے میں جب کہ تیزی سے بڑھتے ہوئیاومیکرون کے نتیجے میں صحت عامہ اور سرکاری کارکنان کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، جنوبی کوریا اب ایسے شہریوں کے لیے جنھیں کروناوائرس کا خطرہ ہوسکتا ہے قرنطینہ کی شرط پر پابندی کینفاذ کے لیے جی پی ایس مانیٹرنگ نظام کا استعمال ترک کر رہا ہے۔جنوبی کوریا کے متعدی امراض کے ماہر، جیونگ انکوئینگ نے پیر کے روز کہا ہے کہ مرض کے پھیلاؤ کی رفتار کو دیکھتے ہوئے طبی امداد فوری طور پر فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔کوریا کے بیماری پر کنٹرول اور بچاؤ کے ادارے نے اطلاع دی ہے کہ اومیکرون ملک میں انتہائی تیزی سے پھیلنے والا ویرئنٹ بن چکا ہے؛ جہاں روزانہ کی بنیاد پر وائرس کے 38،691 نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ وسط جنوری سے اب تک کرونا وائرس کی بیماری میں نو گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جیونگ نے بتایا کہ فروری کیاواخر تک روزانہ کی بنیاد پر ان کیسز میں 130000سے 170000تک اضافہ ہوسکتا ہے۔بائیوٹیک کمپنیوں کے ساتھ قریبی اقدام کرتے ہوئے، جنوبی کوریا کے صحت کے حکام نئے کیسز کے لیباریٹری ٹیسٹ کرنے اور ٹیکنالوجی کے طریقہ کار کو اپنانے میں دیر نہیں لگاتے تھے، جب کہ عام کارکنان مریضوں پر نظر رکھ کر قرنطینہ کا نفاذ یقینی بنایا کرتے تھے۔تاہم، اومیکرون ویرئنٹ سامنے آنے کے بعد کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں غیر معمولی تیزی آ چکی ہے جس کے نتیجے میں ملک کو حاصل ہونے والی کامیابی غیر مؤثر و ناکافی ہو کر رہ گئی ہے، جس کے باعث صحت اور انتظامی وسائل کم پڑ گئے ہیں۔حکام پہلے ہی علاج کو گھروں تک محدود کرنے کا طریقہ کار اپنانے پر مجبور ہوگئے ہیں، اب قرنطینہ کے لیے درکار دنوں میں کمی کی گئی ہے، ٹیسٹ پالیسی کو نئی شکل دی گئی ہے، نئے ٹیسٹ کٹس اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے، جب کہ ان ٹیسٹس کے قابل بھروسہ ہونے کے بارے میں تشویش موجود ہے۔ اب ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی عمر 60برس یا اس سے زیادہ ہے یا جنھیں پہلے ہی سیکئی بیماریاں لگی ہوئی ہیں۔جیونگ نے بتایا کہ پہلے ڈیلٹا ویرئنٹ نے اسپتالوں میں داخلہ اور ہلاکتوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا، جب کہ اومیکرون ویرئنٹ نمودار ہونے کے بعد بیماری تیزی سے بڑھنے لگی اور دسمبر اور جنوری میں صورت حال تباہ کن حد تک بڑھ گئی۔پیر کے دن ملک میں 270 افرا د کی حالت ابتر یا تشویش ناک تھی، جب کہ انتہائی نگہداشت کے 46 فی صد یونٹ جن کی کووڈ 19 کے علاج کے لیے ضرورت تھی، پہلے ہی سے زیر استعمال تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہوگی کہ اسپتال کم پڑ جائیں گے۔پیر کے دن تک ملک کی پانچ کروڑ 10 لاکھ کی آبادی کے 86 فی صد کو ویکسین کی دو خوراکیں لگ چکی ہیں، جب کہ تقریباً 55 فی صد لوگوں کو بوسٹر شاٹس دیے جاچکے ہیں۔ خبروں کے مطابق روس میں اومیکرون ویرئنٹ کا متعدی مرض روزانہ کی بنیاد پر دس گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔اتوار کو اس وبائی مرض کے 189071نئے کیسز سامنے آئے؛ جن میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 2800کا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، وسط جنوری کے مقابلے میں کرونا وائرس کے مریضوں میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 17000کا اضافہ ریکارڈ ہو رہا ہے۔حالانکہ حالیہ ہفتوں کے دوران اومیکرون ویرئنٹ کے نتیجے میں مرض میں ڈرامائی انداز سے اضافہ ہو چکا ہے، حکام نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی شرح میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اہل کاروں کے مطابق چھ جنوری کو کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 796 تھی جو اب کم ہو کر 661 ہو گئی ہے۔روس میں متعدی مرض پر نگاہ رکھنے والی ٹاسک فورس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وبا کے نتیجے میں ملک میں اب تک 12 کروڑ 80 لاکھ افراد اس میں مبتلا ہو چکے ہیں، جب کہ ہلاکتوں کی کل تعداد 335،414ہے ، جو یورپ کے مقابلے میں بہت بڑی تعداد ہے۔اس کے باوجود، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گزشتہ ہفتے روس کے چوٹی کے کاروباری ادارے سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ لاک ڈاؤن کرنے یا دیگر اضافی پابندیاں لگانے پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔اس کے برعکس حکومت نے کووڈ 19 کے مریضوں سے رابطے میں آنے والے افراد پر سات دن کے لیے خودساختہ تنہائی میں رہنے کی پابندی ہٹا دی گئی ہے۔