بائیڈن انتظامیہ کا ایک سال: کہاں کامیابیاں ملیں، کہاں مشکلات کا سامنا رہا؟
واشنگٹن،جنوری۔صدربائیڈن کو اقتدار سنبھالے ایک سال پورا ہو رہا ہے، اور اس دوران ان کی مقبولیت کی شرح میں کمی آئی ہے، جس کی دو بڑی واضح وجوہات نظر آ رہی ہیں۔ ایک تو افراط زر کی وجہ سے سست رو معاشی بحالی اور دوسرے کرونا کی عالمی وبا۔ ہرچند کہ اس دوران انہوں نے دو جماعتی اتفاق رائے سے ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کا امدادی پیکیج اور ایک ٹریلین ڈالر کا انفراسٹرکچر کا منصوبہ کانگریس سے منظور کروا لیا ہے۔مارچ میں منظور ہونے والی ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کی کووڈ۔19 کی امدادی رقم امریکی کاروباری اداروں اور خاندانوں میں تقسیم کی گئی، جس سے کرونا وبا سے متاثرہ معیشت اور افراد کو ریلیف ملا، کروڑوں امریکیوں کو نقد رقوم ملیں اور انتہائی غریب افراد کی امداد کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا۔مگر افراط زر نے اس امداد کے اثرات کو گہنا دیا۔ ہر ماہ بڑھتی ہوئی مہنگائی عام امریکیوں کی روزمرہ زندگی کو شدید طور پر متاثر کر رہی ہے۔ دسمبر میں اشیائے ضرورت کے دام پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں سات فی صد بڑھ گئے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں افراط زر کی یہ بلند ترین سطح تھی۔دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ایک سال کے دوران ملازمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ مگر افراط زر نے اس کامیابی پر پانی پھیر دیا۔وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے بیروزگاری الاونس لینے والوں کی تعداد 812,000 تھی اور اب یہ گھٹ کر 210,000 ہے۔ دوسری طرف ایک سال پہلے کرونا ویکسین کی مکمل ڈوز لینے والے بالغ افراد صرف ایک فی صد تھے اور اب یہ 74% ہیں۔وائٹ ہاؤس کے ان اعداد و شمار کے باوجود عالمی وبا اور افراط زر نے پہلے سال کے آخر تک صدر بائیڈن کی مقبولیت کے گراف کو نیچے گرایا ہے۔ حال ہی میں مارکیٹ ریسرچ فرم Ipsos کے مطابق بائیڈن کی مقبولیت کی شرح 45 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ اس فرم کی نائب صدر برائے پبلک افیرز مولی نیوال کہتی ہیں کہ معاشی بحالی اور کووڈ کے خاتمے کے سلسلے میں صدر کی کوششوں کے باوجود اکثر امریکی موجودہ حالات سے خوش نظر نہیں آتے۔دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ کے قانون سازی کے ایجنڈے کے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔ ری پبلکن کی حمایت سے ایک ٹریلین ڈالر کا انفراسٹرکچر بل منظور ہوا، مگر پونے دو ٹریلین کا سماجی اخراجات اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کا بل کھٹائی میں پڑا ہے، ہرچند کہ اصل رقم سے گھٹا کر اس کو نصف کر دیا گیا ہے۔دوسرے اہم بل ووٹنگ کے حقوق سے متعلق ہیں۔ ان دو بلوں کی ری پبلکن شدید مخالفت کر رہے ہیں اور سینیٹ میں ان کی منظوری کا معاملہ اٹکا ہوا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان حالات میں انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کو اپنے ایجنڈے اور حکمت عملی کو دوباہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔صدر بائیڈن اپنی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر ایک نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کر رہے ہیں۔ سال 2022 کی یہ پہلی نیوز کانفرنس ایک ایسے موقعے پر کر رہے ہیں جب قانون سازی کے دو بل کانگریس میں اٹکے ہوئے ہیں، دوسری طرف گزرے سال افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے معاملے پر امریکی رائے عامّہ ان کے حق میں نظر نہیں آتی۔