فائیو آئیز اتحاد: امریکہ اور برطانیہ کا انٹیلیجنس معاہدہ جو کئی دہائیوں تک صیغہ راز میں رہا
لندن،ستمبر۔’مجھے بتایا گیا نیوزی لینڈ حکومت کو سکیورٹی ایجنسیوں سے ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس دن خطرہ لاحق ہے۔۔۔ انھوں نے بتایا یہ معلومات فائیو آئیز انٹیلیجنس سے آئی تھی۔‘پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سی ای او وسیم خان کے مطابق انھیں 17 ستمبر کو یہ معلومات نیوزی لینڈ کے سکیورٹی کنسلٹنٹ ریج ڈکینسن نے دی تھیں۔نیوزی لینڈ کرکٹ کے سربراہ ڈیوڈ وائٹ کے مطابق ’اس خطرے کی بنیادی نوعیت کے بارے میں تو پی سی بی کو آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن اس کی مخصوص تفصیلات نہیں بتائی جا سکتی تھیں، نہ بتائی جائیں گی۔۔۔ نہ ہی نجی حیثیت میں اور نہ ہی عوامی طور پر۔ پاکستان میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورے منسوخ ہونے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسے ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے، یعنی ان کے مطابق اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ہوائی اڈے نہ دینا ہے۔متعدد ذرائع ابلاغ فائیو آئیز نامی بین الاقوامی اتحاد کو ان انٹیلیجنس معلومات کا ذریعہ کہہ رہے ہیں تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ فائیو آئیز نامی اتحاد پانچ انگریزی بولنے والے جمہوری ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین انٹیلیجنس شیئرنگ کا ایک معاہدہ ہے۔یہ اتحاد دوسری عالمی جنگ کے دوران قائم ہوا جس میں امریکہ کی جاسوسی کے لیے استعمال کی جانے والی طاقتور ٹیکنالوجی اور برطانیہ کی روایتی انسانی انٹیلیجنس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ حکمتِ عملی سابق سوویت یونین، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں بخوبی کام کر رہی ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار برائے سکیورٹی گورڈن کوریرا نے رواں سال مارچ میں اپنی ایک تحریر میں فائیو آئیز اتحاد کی تاریخ کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ فائیو آئیز سے متعلق نئی دستاویزات حال ہی میں ریلیز کی گئی ہیں جس میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان اس خفیہ انٹیلیجنس معاہدے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی اور برطانوی انٹیلیجنس حکام کے درمیان بلچلی پارک میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں لیکن باقاعدہ طور پر اس معاہدے پر مارچ سنہ 1946 کو دستخط کیے گئے۔ابتدائی طور پر اس اتحاد کا مقصد انٹیلیجنس معلومات تک رسائی کے لیے ایک ساتھ کام کرنا تھا جس میں خفیہ پیغامات کی زبان سمجھنا اور مواصلات کو روکنا شامل تھا۔ اس کے ذریعے تمام فریقین ایک دوسرے سے ہر قسم کی معلومات شیئر کرسکتے تھے۔آہستہ آہستہ اس میں دیگر ممالک شامل ہوئے اور آج یہ فائیو آئیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔رواں سال اس اتحاد کی سالگرہ کے موقع پر برطانوی انٹیلیجنس جی سی ایچ کیو کے ڈائریکٹر جریمی فلیمننگ اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سربراہ جنرل پال نکاسون نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ انفرادی قوت کے مقابلے ’اکٹھے ہم ایک عظیم اتحاد ہیں۔‘ انھوں نے اس موقع پر اس شراکت کو مزید مضبوط کرنے کی بات بھی کی تھی۔رواں سال برطانوی انٹیلیجنس کی طرف سے جاری ہونے والے دستاویزات کے مطابق اس اتحاد کا آغاز فروری 1941 میں ہوا تھا۔ اس سلسلے میں برطانوی اہلکار الیسٹر ڈینسٹن کی ڈائری انٹری موجود ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ ’دی وائز آر کمنگ (یعنی وائے آ رہے ہیں)۔‘ یہاں وائز سے مراد ینکیز (امریکی) ہیں۔اس وقت ڈینسٹن بلچلی پارک کے سربراہ تھے جہاں خفیہ معلومات کو سمجھنے کے لیے کوڈ بریکنگ کی جاتی تھی۔ اس وقت تک امریکہ دوسری عالمی جنگ کا حصہ نہیں بنا تھا مگر امریکی کوڈ بریکرز کا ایک گروہ بلچلی پارک آرہا تھا۔انھوں نے اپنے اسسٹنٹ کو بتایا کہ ’چار امریکی شہری مجھے آج رات 12 بجے ملنے آ رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ شیری (شراب) کے ساتھ آئیں۔ آپ کسی کو یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ کون ہیں یا یہاں کیا کرنے والے ہیں۔‘نازی فوج کے جنگی طیاروں نے ایک امریکی کشتی پر گولیاں برسائی تھیں جس کے بعد امریکہ نے یہ خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکام برطانیہ میں کوڈ بریکنگ کے مرکز پر ایک اہم مشن پر آئے تھے۔اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی اجازت کے ساتھ دونوں ملکوں کے جاسوسوں نے حساس خفیہ معلومات شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ برطانیہ نے جرمنی کا معروف ’انیگما کوڈ‘ توڑا تھا جبکہ امریکہ نے جاپانی کوڈ پرپل کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔ان دستاویزات کی ڈائری انٹریوں کے مطابق ڈینسٹن اور ان کے ہم منصب سمیت اہم شخصیات ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کرتی تھیں۔ معروف کوڈ بریکر ایلن ٹیورنگ بھی ان دوروں میں شامل ہوتے تھے۔این ایس اے کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں اتحادیوں نے عالمی مواصلات کو روکنے کے لیے وسیع صلاحیت پیدا کر لی تھی جس کے بارے میں عام لوگ لاعلم تھے۔دونوں ملکوں کے یہ تعلقات دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی قائم رہے۔ سرد جنگ کی ابتدا کے موقع پر واشنگٹن میں 5 مارچ 1946 میں معاہدہ طے پایا۔یہ معاہدہ ایک ’شادی کے معاہدے‘ جیسا تھا جس میں دونوں ملکوں نے اپنے تعاون میں ایمانداری، کھل کر بات چیت اور وعدوں کی پاسداری پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایک دوسرے کے خلاف ’نو سپائی ڈیل‘ کی جائے، یعنی انٹیلیجنس حکام ایک دوسرے کو جاسوسی کا ہدف نہیں بنائیں گے۔برطانیہ اور امریکہ نے یہ عزم ظاہر کیا کہ تقریباً تمام تر انٹیلیجنس معلومات شیئر کی جائیں گی جس میں کوڈ بریکنگ اور دوسرے کے مواصلاتی پیغامات پکڑنا شامل تھا۔ تاہم معاہدے میں ایک دوسرے کو اجازت دی گئی تھی کہ ضرورت کے مطابق وہ آزادانہ طور پر اقدامات کر سکتے ہیں۔معاہدے کے 10 سال کے اندر اس میں آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اس کا نام ’یو کے یو ایس اے‘ سے بدل کر ’فائیو آئیز‘ رکھا گیا۔ سنہ 2010 تک اس خفیہ معاہدے کے اصل دستاویزات صیغہ راز میں رکھے گئے تھے۔دوسری عالمی جنگ میں قائم ہونے والے اس اتحاد کی طاقت نے دونوں ملکوں کے درمیان ’خاص تعلق‘ قائم کر دیا۔ اب دیگر شعبوں میں یہ اصطلاح شاید پرانی تصور کی جاتی ہے لیکن یہ ایسا شعبہ بھی ہے جہاں اسے ہمیشہ سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور وہ ہے کوڈ بریکنگ۔فلیمننگ اور جنرل نکاسون نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ ’یہ اتحاد اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم مواصلات، ترجمہ، تجزیہ اور کوڈ بریکنگ سے ملنے والی معلومات کا کیسے تبادلہ کرتے ہیں۔ اس سے ہم نے کئی دہائیوں تک اپنے ملکوں اور اتحادیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔‘’جدید ڈیجیٹل دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ خطرات بین الاقوامی سرحدوں کا احترام نہیں کرتے۔ ہماری سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے عالمی شراکت داری اہم ہے۔ اور یہ سب سے زیادہ ہم دو ملکوں کے لیے ضروری ہے۔‘اس تعلق کا مطلب ہے کہ اتحادیوں نے خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے آپس میں دنیا کو تقسیم کر لیا۔ مثلاً کیوبن میزائل بحران کے دوران سکاربرو میں جی سی ایچ کیو کے آؤٹ سٹیشن نے انتہائی اہم خفیہ معلومات پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسی مدد سے یہ رپورٹ واشنگٹن میں صدر کینیڈی کے ڈیسک تک پہنچ سکی۔این ایس اے اور جی سی ایچ کیو کام بانٹا کرتے ہیں۔ مثلاً برطانوی انٹیلیجنس روسی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی (جی آر یو) کے ہیکروں کی نگرانی کرتی ہے اور یہ معلومات امریکی انٹیلیجنس کو منتقل کی جاتی ہے۔ جیسے 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب کے دوران ان کی جانب سے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی میں ہیکنگ کے واقعات کا انکشاف ہوا تھا۔بحر اوقیانوس کے دونوں پار عملے کے تعلقات قریبی رہتے ہیں اور اکثر یہ بیرونی دورے کر کے ایک دوسرے کی ایجنسی میں کام کرنے آتے ہیں۔ یہ تعلق ایم آئی سِکس اور سی آئی اے کے مابین تعلقات سے بھی زیادہ قریبی ہے جو عموماً سِگنل انٹیلیجنس کی جگہ ہیومن انٹیلیجنس کے شعبے میں متحرک ہوتے ہیں۔لیکن یہ تعلق ہمیشہ اتنا دوستانہ نہیں رہا۔ قربت سے خطرات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ سرد جنگ کے آغاز میں یہ خدشہ رہتا تھا کہ دوسرا فریق ’معلومات لیک کرسکتا ہے۔‘برطانیہ میں ’کیمرج فائیو‘ کے کیس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ برطانوی انٹیلیجنس میں کچھ افراد نے سوویت یونین کو خفیہ معلومات فراہم کیں۔ برطانیہ سے متعلق یہ خدشہ بھی رہا ہے کہ آیا یہ امریکہ کے مقابلے اتنا ہی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ (کیونکہ امریکہ کے پاس وسائل زیادہ ہیں مگر برطانیہ کی کوڈ بریکنگ کی مہارت اس تعلق میں توازن رکھتی ہے۔)حال ہی میں جی سی ایچ کیو کی سابقہ اہلکار کیتھرین گن نے انکشاف کیا تھا کہ این ایس اے کے ایک پیغام کے مطابق امریکہ نے سنہ 2003 میں عراق کی جنگ کے پس منظر میں اقوام متحدہ کی جاسوسی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔این ایس اے کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں اتحادیوں نے عالمی مواصلات کو روکنے کے لیے وسیع صلاحیت پیدا کر لی تھی جس کے بارے میں عام لوگ لاعلم تھے۔کچھ ممالک نے بعض اوقات کہا ہے کہ وہ بھی اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ سنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے جرمنی کی بھی جاسوسی کی تھی جس کے بعد جرمنی نے ’نو سپائی ڈیل‘ کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن فائیو آئیز صرف انٹیلیجنس شیئرنگ کا اتحاد نہیں بلکہ یہ خفیہ معلومات ڈھونڈ نکالنے کا بھی نیٹ ورک ہے۔ یہاں رکن ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خفیہ معلومات لائیں اور بظاہر یہی ایک رکاوٹ ہے کہ دوسروں کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔حال ہی میں انٹیلیجنس کے مغربی اتحادیوں نے چین پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ اس سے آسٹریلیا کا کردار مزید اہم ہوگیا ہے۔جب برطانیہ نے فائیو جی کے لیے چینی کمپنی ہواوے کا سامان استعمال کرنے کا اعلان کیا تو امریکہ نے اسے متنبہ کیا تھا کہ اب انٹیلیجنس شیئرنگ محدود کی جاسکتی ہے۔ مگر برطانیہ نے 2020 میں اپنا موقف بدل لیا اور ہواوے کو خارج کردیا۔مقاصد میں تبدیلی سے یہ بات چیت بھی ہونے لگی تھی کہ شاید جاپان اور ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی فائیو آئیز میں شامل کر لیا جائے گا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں مگر وہ ان ممالک سے مزید تعاون چاہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ فائیو آئیز میں اتحادیوں کے تعلقات اسی اعتماد اور ذاتی روابط کا تسلسل ہیں جو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران قائم ہوئے تھے۔