طالبان حکومت افغانستان میں بھوک و افلاس کا خاتمہ کر پائے گی؟
کابل،ستمبر۔آج کابل ایک نئے عہد، ایک نئے جنم کا منتظر ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو اس کے نئے طالبان حکمرانوں کی ایما پر منحصر ہے۔ شہر کے غربا کے لیے، جو یہاں اکثریت میں پائے جاتے ہیں، فاقوں سے بچنے کے لیے دن کے چند سو افغانی کمانا ہی زندگی کا واحد مقصد بن گیا ہے۔ لاکھوں لوگ یہاں بد ترین غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جسے تقریباً دو دہائیوں تک بین الاقوامی امداد کی مد میں اربوں ڈالر ملے۔مگر امریکہ نے افغانستان کے تقریباً نو ارب ڈالر منجمد کر رکھے ہیں۔ یہ رقم ان افراد کی زندگیاں تو بہتر بنا سکتا ہے تاہم امریکہ نہیں چاہتا کہ یہ پیسے طالبان کے ہاتھ لگیں۔دارلحکومت کے دیہاڑی دار مزدور علی الصبح اپنے اوزار لیے شہر کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ شہر میں بڑے پیمانے پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا۔ بینک بند ہیں اور بیرون ملک سے آنے والی امداد کا نل بھی بند ہو چکا ہے، اب محض قطرے ہی بچے ہیں۔چند مزدوروں کو کام مل جاتا ہے لیکن وہاں انتظار کرنے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔حیات خان پچھلے 20 برسوں میں کرپٹ شرفا کی جانب سے کے جانے والی لوٹ مار پر نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امیر لوگ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں، انھیں غریب کی کوئی فکر نہیں۔ میں تو روٹی تک نہیں خرید سکتا۔ ان لوگوں نے مغربی ڈالروں سے اپنی جیبیں بھر لیں اور میرے ہاتھ میں امداد کا ایک دھیلا بھی نہیں آیا۔‘ کسی کو غریب کی فکر نہیں۔ جب باہر سے امداد آتی ہے تو حکمران اسے اپنے لوگوں کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، غریب کے ہاتھوں میں نہیں۔ محمد انور، جن کے پاس خوش قسمتی سے ایک نوکری ہے، میرے ان مزدوروں سے کیے گیے انٹرویوز سننے کے لیے رکے اور پھر اس گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے انھوں نے انگریزی میں امریکیوں پر چوری کا الزام عائد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکہ سے کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں وہ رقم واپس کریں جو انھوں نے افغان حکومت کی منجمند کر رکھی ہے۔ اس پیسے کو افغانستان کی تعمیر نو پر استعمال ہونا چاہیے۔‘ایک موقع پر ایک سیاہ داڑھی والے بارعب طالبان عہدیدار نے گفتگو میں دخل دیتے ہوئے ہم سے علاقہ چھوڑنے کا کہا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ خطرناک ہے۔ مجھے وہاں کسی خطرے کا احساس نہیں ہوا تھا، لیکن یہ وقت اور جگہ بحث کرنے والی نہیں تھی۔ ان کے ساتھ طالبان محافظ بھی تھے جنھوں نے فوجیوں کے انداز میں دھوپ کے چشمے پہن رکھے تھے اور وہ امریکی ساختہ رائفل سے لیس تھے۔دارالحکومت کابل کے وسط میں بڑی تعداد میں طالبان جنگجو دکھائی دیتے ہیں اور افغانستان پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اس کا نام اسلامی امارات رکھ دیا ہے۔ایئرپورٹ پر وہ امریکی فوجیوں کے یونیفارم پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ شہر بھر میں وہ روائتی لباس شلوار قمیض اور سر پر کالی پگڑی پہنے نظر آتے ہیں اور یہ سب بھاری ہتھیاروں اور رائفلز سے لیس ہیں۔گذشتہ ہفتے کے دوران جس ایک چیز کے بارے میں سب سے زیادہ شکایات سننے کو ملیں وہ خوراک کی بڑھتی قیمتیں اور والدین کی اپنے بچوں کو کھانے فراہم کرنے کی پریشانی تھی۔ اشیا خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسے میں لاکھوں افراد اپنے خاندانوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کے اندازے کے مطابق 93 فیصد افراد کو کھانے کے لیے خوراک میسر نہیں ہے۔ گذشتہ ماہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل یہ تعداد 80 فیصد تھی۔شہر بھر کی گلیوں اور چوراہوں پر لوگ ٹھیلے اور ریڑھیاں لگائے دکھائی دیتے جہاں وہ اپنے گھر کی اشیا بیچ رہے ہیں تاکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے خوراک خرید سکیں۔ میں نے بہت سی ایسی ریڑھیاں دیکھی جن پر لوگ اپنے گھر کا سامان لاد کر لا رہے تھے جن میں مہنگے قالین سے لے کر ٹی وی سیٹ اور مختلف طرح کی برتن وغیرہ تھے۔ایک شخص کو میں نے ربڑ پلانٹ بیچتے دیکھا۔ لیکن اس بازار میں بیچنے والے زیادہ اور خریدار کم تھے۔ استمال شدہ اشیا کے اس بازار میں مایوسی کا راج تھا۔افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک میں شخصی آزادی، لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے خطرات کی دنیا بھر نے مذمت کی ہے۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رات کو بھوکے پیٹ سونے کی تکلیف ہے۔ایسے ممالک جو افغانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک پر طالبان کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے وہ اس تمام صورتحال میں مخمصے کا شکار ہیں۔لوگ کام کر کے پیسے کما سکیں اور اپنے لیے خوراک خرید سکے اس کے لیے طالبان کو افغانستان میں ایک قابل عمل ریاست کا نظام تشکیل دینا پڑے گا۔لیکن امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں ایسے بہت سے افراد جنھوں نے طالبان کے ساتھ لڑائی لڑی کو قابل برداشت نہیں ہے کہ ان کے پرانے دشمن کسی طرح کامیاب ہو سکیں۔اس کا متبادل شائد اس سے بھی بدتر ہو، جو ملک میں مزید غربت، بھوک و افلاس، مزید پناہ گزین اور مزید خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ افغانستان کے ایک بار دوبارہ ناکام ریاست بننے اور جہادی عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بننے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔