کیا نیتن یاہو ایک بار پھر اسرائیلی وزیراعظم بن سکتے ہیں؟

تل ابیب،جولائی۔جمعرات کے روز نفتالی بینیٹ کی حکومت کے خاتمے اور اسمبلی کے ٹوٹ جانے کے بعد اگلے عام انتخابات ماہ نومبر میں ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے۔ اسی پس منظر میں سابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ وہ اقتدار میں واپس آئیں گے۔ ایک نظر ان پر دالتے ہیں کہ اسرائیل واپس انتخابات کی طرف دوبارہ کیسے آیا ہے۔ اور نیتن یاہو کے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کا امکان کس قدر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم دوبارہ اس موڑ پر کیسے پہنچے؟بینیٹ نے اپنے اتحادی کے ساتھ نصف شب سے عبوری حکومت سنبھال لی ، یائر لیپڈ نگران وزیر اعظم قرار پا چکے۔ اس سے پہلے گذشتہ سال ماہ جون میں ہی بر سر اقتدار آئے تھے جب نیتن یاہو کے بارہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اب نیتن یاہو کی جگہ ایک وسیع البنیاد نوعیت کی حکومت نے جگہ لی جس میں بینیٹ وزیر اعظم بنے۔ یہ بائیں بازو کی اور عرب جماعتوں کے ساتھ زیادہ تر دائیں بازو کی کٹر جماعتوں کا ایک ملغوبہ تھا۔ لیکن یہ وسیع البنیاد حکومت حالیہ چند ہفتوں میں اپنے کمزور سی اکثریت سے محروم ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ نیتن یاہو کی صورت میں اپوزیشن اس حکومت کو ووٹ کے ذریعے ایوان سے باہر پھینک دیتے اس حکومت نے خود فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ توڑ دی جائے چار سال سے بھی کم عرصے میں پانچویں عام انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔شاید یہ ابھی غیر واضح ہے۔ کہ زمینی صورت حال میں ایک سال کے دوران اتنی بڑی تبدیلی آچکی ہے کہ نیتن یاہو کو اس کا فائدہ ہو سکے۔ اگرچہ نیتن یاہو کی رجعت پسند جماعت پہلے بھی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا دھڑا تھی اور پری الیکشن پولز میں آگے نظر آرہی ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل میں کوئی بھی جماعت اج تک واضح اکثریت نہیں لے سکی۔ اس لیے جو بھی حکومت بناپائی اس جماعت کو دوسری جماعتوں کی ہی مدد لینا پڑی اور اتحاد کرنا پڑا۔ نیتن یاہو نے پچھلی حکومت بنائی تو دائیں بازوکی جماعتوں کی مدد سے بنائی تھی۔ کیونکہ 2019 اور 2021 کے درمیان ہونے والے چاروں انتخابات میں واضح اکثریت پانے میں ناکام رہے تھےبلا شبہ نیتن یاہو پر کرپشن کے الزامات کا سایہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے دھوکہ دہی اور اعتماد کو مجروح کرنے کے بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑے۔ اگرچہ اس طرح کے ہر الزام سے نیتن یاہو کا انکار ہے۔ جبکہ یہی الزامات ان کے مخالفین کو ان کے خلاف متحد کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود نیتن یاہو کو حاصل عوامی حمایت اپنی جگہ برقرار رہی ہے۔سیاسی نقشہ یکم نومبر کے عام انتخابات تک یقیناً تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ نئے اور غیر متوقع سیاسی اتحاد بن سکتے ہیں۔ کوئی ایک چھوٹی جماعت جیتنے کی یا ووٹوں کی گنتی میں قدرے نیچے رہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ میں داخل تو ہو مگر پارلیمنٹ کا توازن بگڑا ہی رہے۔نیتن یاہو جو ہمیشہ ملکی سلامتی اور معیشت کے حوالے سے اپنی اہمیت جتلاتے ہیں۔ کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت حالیہ مہنگائی کے چیلنج سے نمٹنے کی ترجیحآ کوشش کرے گی۔ مہنگائی کی یہ لہر اگرچہ پوری دنیا میں ہے لیکن نیتن یاہو اس کا الزام بینیٹ اور لیپڈ کی حکومت پر لگاتے ہیں۔ جمعرات کے روز چینل 12 پر ایک پول سامنے آیا۔ جس نے بتایا کہ نیتن یاہو قدرے زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور کنیسٹ کی 120 نشستوں میں سے 58 نشستوں پر ان کی جماعت جیت سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی اکثریت سے محروم۔ موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں 56 نشستیں جیت سکتی ہیں جبکہ عرب چھ مشستین جیت سکتی ہے۔ مزے کی بات ہے 21 جون کو اسی ٹی وی کے کرائے گئے پول میں نیتن یاہو 47 فیصد لوگ نیتن یاہو کو وزارت عظمی کے لیے زیادہ موزوں سمجھتے ہیں جبکہ 31 فیصد کے نزدیک لیپڈ زیادہ مناسب ہے۔

 

Related Articles