کیا انڈیا الیکڑک گاڑیوں کا انقلاب برپا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر پائے گا؟

دلی،اکتوبر۔انڈیا میں گذشتہ ماہ یعنی ستمبر کے دوران ریکارڈ تعداد میں الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوئیں ہیں۔ انڈیا میں ان گاڑیوں کی فروخت میں رواں مالی سال کی ابتدا یعنی اپریل سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں الیکڑک گاڑیوں کی فروخت گذشتہ سال مجموعی طور پر ہونے والی فروخت کی تعداد کے قریب ہے۔یہ ایک ایسی صنعت کے لیے امید کی کرن ہے جو سیمی کنڈکٹر چپس کی عالمی قلت کی وجہ سے جدوجہد کر رہی ہے اور ترقی کے سست دور سے گزر رہی ہے۔دہلی میں قائم تھنک ٹینک کونسل آن انرجی، انوائرنمنٹ اینڈ واٹر (سی ای ای ڈبلیو) کے مطابق رواں مالی سال میں ایک لاکھ اکیس ہزار سے زائد الیکڑک گاڑیوں فروخت ہوئی ہے جو کہ انڈیا کی دو کروڑ گاڑیوں کی فروخت کا صرف 1.66 فیصد ہے۔الیکڑک گاڑیاں بنانے والی کچھ کمپنیاں، خاص طور پر دو پہیے والی الیکڑک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں، اس شعبے میں کْھل کر کھیل رہی ہیں۔ لیکن کاروں اور تجارتی الیکڑک گاڑیوں کی بات کی جائے تو اس کی مانگ انتہائی کم ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اس کی الیکڑک گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کی سکیم کے ساتھ اس میں بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے۔الیکٹرک گاڑیوں سے کاربن اخراج میں بھی کمی آئے گی۔ نومبر میں سی او پی 26 کے سربراہی اجلاس سے قبل کاربن خارج کرنے والے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ملک انڈیا پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔برقی متبادل میں لوگوں کی دلچسپی اس لیے بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور انڈیا کے تیل درآمد کرنے کا خرچ 24.7 ارب ڈالر تک پہنچ رہا ہے۔سی ای ای ڈبلیو میں توانائی فنانس کے مرکز کے ڈائریکٹر گگن سدھو نے کا کہنا ہے کہ ’یہ جزوی طور پر موسمیاتی تبدیلی اور اقتصادیات کے بارے میں ہے۔‘لیکن کیا انڈیا آٹو انڈسٹری میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کے لیے تیار ہے؟
ایک خواب:اولہ الیکٹرک کمپنی کے چیف مارکٹنگ آفیسر ورون دوبے کا کہنا ہے کہ ’صارف کہتا ہے کہ ’مجھے یہ چاہیے ، حکومت اس کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب ہمیں الیکٹرک گاڑیاں بنانی ہیں۔‘ خیال رہے کہ اولہ انڈیا میں اوبر کی طرح ایک کمپنی ہے جو اپنے ایپ کے ذریعے کرائے پر گاڑیاں چلاتی ہے۔اس کمپنی نے حال ہی میں انڈیا میں 32 کروڑ ڈالر کی سکوٹر فیکٹری لگانے کا اعلان کیا ہے جو ہر سال ایک کروڑ الیکٹرک ٹو وہیلر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ دنیا کی پیداوار کا تقریباً 15 فیصد ہے۔مسٹر دوبے نے کہا کہ ’کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کر رہا ہے کہ کیا ہمیں آلودگی سے پاک ہوا کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ہم یہ کریں گے، مگر کیسے؟‘انڈین حکومت کو یقینی طور پر یہ ہدف حاصل کرنے کی جلدی ہے۔ سنہ 2017 میں انڈیا کے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے کہا کہ وہ سنہ 2030 کے آخر تک انڈیا کی سڑکوں پر صرف الیکٹرک گاڑیاں چاہتے ہیں۔ یہ ایک ناممکن ہدف تھا جس پر انھوں نے بعد میں نظر ثانی کی ہے۔اب منصوبہ یہ ہے کہ 2030 تک 30 فیصد پرائیویٹ کاریں، 70 فیصد کمرشل گاڑیاں، 40 فیصد بسیں اور 80 فیصد دو اور تین پہیوں والی برقی گاڑیاں چلیں گی۔سی ای ڈبلیو کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ دو اور تین پہیے والی گاڑیاں اس ہدف تک پہنچ رہی ہیں۔ انڈیا میں بیٹری سے چلنے والے سکوٹر بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہیرو الیکٹرک نے سنہ 2027 تک پٹرول سے چلنے والے دو پہیوں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔سوسائٹی آف آٹوموبائل مینوفیکچررز کے مطابق انڈیا نے سنہ 2019 اور 2020 میں 17.4 ملین دو پہیوں والی گاڑیاں اور صرف 27 لاکھ الیکڑک کاریں فروخت کی ہیں۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ کے بیشتر حصوں میں موٹر سائیکلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اولہ بیٹری سے چلنے والی موٹرسائیکلوں کے لیے مستقبل کے ایک بڑے بازار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔کمپنی نے کہا کہ اس نے پچھلے مہینے دو دن کی آن لائن خریداری کے دوران انڈین عوام کو تقریباً ایک لاکھ موٹر سائیکل فروخت کیے ہیں جو انڈیا کے کسی ایک مالی سال میں کہیں زیادہ فروخت ہونے والی الیکٹرک موٹر سائیکل ہیں۔مسٹر ڈوبے کا کہنا ہے کہ اس سے واضح ہے کہ ان کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔
حقیقت:ـالیکٹرک کاروں کی فروخت کا معاملہ اس کے برعکس ہے جو انڈیا کے اس مالی سال میں محض چار فیصد سے بھی کم ہے۔فیڈریشن آف آٹوموبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ونکیش گلاٹی نے کہا ’آپ وہی فروخت کر سکتے ہیں جو دستیاب ہے یہاں مسئلہ مانگ کے بجائے سپلائی کا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’چیلنجز بہت ہیں جن میں چارجنگ سٹیشنز کا زیادہ نہ ہونے سے لے کر بیٹری کے ڈسپوزل اور ری سیل ویلیو تک ہے۔‘اور پھر قیمت بھی اہم مسئلہ ہے۔ انڈیا میں ایک کار کی اوسط قیمت تقریباً سات لاکھ روپے ہے جبکہ سب سے سستی الیکٹرک کار بارہ لاکھ روپے کی ہے۔مسٹر گلاٹی نے کہا کہ اس سب کی وجہ سے راستے بہت محدود رہ جاتے ہیں۔انڈیا میں کار خریدنے والے لوگ بہت محتاط ہوتے ہیں اس لیے انڈیا کی سب سے بڑی کمپنی ماروتی نے بھی الیکٹرک یا برقی کاریں بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔اسی لیے غیر ملکی کمپنیاں بھی یہاں اپنی جگہ نہیں بنا پائیں اور بند ہو گئیں۔ گذشتہ ماہ ہی فورڈ کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ انڈیا میں کاریں بنانا بند کر رہی ہے۔ ٹیسلا کمپنی کو انڈیا میں کام شروع کرنا تھا تاہم کمپنی نے درآمدات کے بھاری ٹیکسوں کی شکایت کی ہے۔گٹکری کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن کمپنی کو کاریں انڈیا میں ہی تیار کرنی ہوں گی اور انڈین شہریوں کو چینی ساخت کی کاریں نہیں فروخت کی جائیں گی۔آئی ایچ ایس مارکٹ کے ہیڈ آٹو سیکٹر تجزیہ کار پونیت گپتا کا کہنا ہے کہ جب انڈیا میں الیکٹرک کاروں کی مارکیٹ بڑھے گی تو مزید کمپنیاں یہاں آ کر کام کریں گی۔ تاہم انھیں نہیں لگتا کہ 2030 تک ایسا ممکن ہو سکے گا۔
مستقبل:پونیت گپتا کا کہنا تھا کہ ’برقی گاڑیوں کی دنیا بالکل مختلف ہے اور اس کے لیے پورے ماحولیاتی نظام کو تعاون کرنا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کمپنی کار بناتی ہے، لیکن ایک کیمیائی کمپنی اسے چلانے کے لیے بیٹریاں بناتی ہے اور اینرجی سپلائر اسے چارج کرنے کے لیے اینرجی فراہم کرتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ان سب کو ایک دوسرے سے بات کرنی ہو گی۔ ’منافع کے لیے انڈیا ایک مشکل بازار ہے۔ لہٰذا، اخراجات کو بچانے اور نقصانات کو کم کرنے کے لیے تعاون ضروری ہے۔‘مسٹر دوبے آگے بڑی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس موجود تمام اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ آن لائن خریداری کے لیے زیادہ تیار ہیں۔‘مرکزی نظام سے منسلک گاڑیوں کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس ان کی کارکردگی کے بارے میں مزید ڈیٹا ہے جس سے قرضے اور انشورنس کے نظام میں بہتری آتی ہے۔لیکن جیسے جیسے یہ انقلاب آگے بڑھے گا دوسرے چیلنجز سامنے آئیں گے، انڈیا اب بھی زیادہ تر چین سے درآمد شدہ بیٹریوں پر انحصار کرتا ہے اور یہ توانائی کے محفوظ مستقبل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بیٹری کے متبادل، جیسے ایلومینیم، اور ڈسپوزل کے لیے کان کنی کے ماحولیاتی نتائج ہوتے ہیں۔

Related Articles