کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا: وسیم اکرم

کراچی،اکتوبر۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے تاہم انھوں نے اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد اس عادت کو ترک کر دیا تھا۔56 سالہ سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم نے 2003 میں ریٹائرمنٹ تک 900 سے زیادہ انٹرنیشنل وکٹیں حاصل کی تھیں۔اپنی نئی سوانح عمری میں وسیم اکرم کہتے ہیں کہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دنیا بھر میں ٹی وی پر بطور تجزیہ کار خدمات سرانجام دے رہے تھے کہ جب انھوں نے کوکین کا استعمال شروع کیا۔انھوں نے ’دی ٹائمز‘ کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’جنوبی ایشیا میں شہرت کے کلچر سے آپ کا ذہن بھر جاتا ہے، یہ پْرکشش ہوتا ہے اور آپ کو خراب بھی کر سکتا ہے۔‘’آپ ایک رات میں 10 پارٹیوں پر جا سکتے ہیں۔ اور کچھ جاتے بھی ہیں۔ اس کا میرے پر بہت بْرا اثر ہوا۔‘وسیم اکرم کی پہلی اہلیہ ہما کی وفات 2009 میں ایک نایاب فنگل انفیکشن کی وجہ سے ہوئی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہما کا آخری بے غرض اور لاشعور اقدام میری منشیات کی لت چھڑوانا اور میرا علاج کرنا تھا۔‘’پھر یہ طرز زندگی ختم ہو گیا اور میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘وسیم اکرم نے 1984 میں انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے لیے 104 ٹیسٹ اور 356 ون ڈے میچ کھیلے اور 1992 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے چمکتے ستارے تھے۔
انھوں نے 1993 سے 2000 کے درمیان 25 ٹیسٹ اور 109 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔ انھیں کرکٹ کی تاریخ کے بہترین بولرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔وسیم کہتے ہیں کہ جب وہ اپنی بیوی ہما اور مانچسٹر میں دو بیٹوں سے دور ہوتے تھے تو اس دوران ان کا کوکین پر انحصار بڑھ جاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ جب انگلینڈ میں ایک پارٹی کے دوران انھیں کوکین کی ایک لائن کی آفر کی گئی تو یہ لت بے ضرر انداز میں شروع ہوئی۔ ’میرا استعمال مسلسل بڑھتا گیا اور سنجیدہ ہو گیا۔ میں ایک ایسے لمحے کو پہنچ گیا کہ مجھے کچھ بھی کرنے کے لیے اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔‘وسیم اکرم نے بتایا کہ ’ہما نے میرے بٹوے میں کوکین کا پیکٹ دیکھا۔۔۔ اس نے کہا آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ یہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا تھا، میں اسے کنٹرول نہیں کر سکتا تھا۔ (کوکین کی) ایک لائن دو میں تبدیل ہوسکتی تھی، دو چار میں، چار ایک گرام میں، ایک گرام دو میں۔ میں سو نہیں پاتا تھا۔’میں کچھ کھا نہیں سکتا تھا۔ مجھے میری ذیابیطس کی فکر نہیں رہتی تھی۔ اس سے میرے سر میں درد اور مزاج میں تبدیلیاں آتی تھیں۔ لت میں مبتلا بہت سے لوگوں کی طرح، میرے اندر ایک حصے نے اس دریافت کا خیرمقدم کیا: اسے خفیہ رکھنا مجھے تھکا رہا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ اس وقت ہما تنہا ہوتی تھیں۔ وہ کراچی میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس جانے کی خواہش کا اظہار کرتی تھیں۔ میں اس پر ہچکچاتا تھا۔‘’کیوں؟ شاید اس لیے کیونکہ میں خود سے کراچی جانا پسند کرتا تھا، یہ دکھاوا کرتا تھا کہ کام کے لیے جانا ہے جبکہ دراصل اس کی وجہ وہاں پارٹی کرنا تھی۔ اکثر یہ ایک وقت میں کئی دنوں تک جاری رہتی تھی۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں ان کی بیوی کو پتا چلا جس کے بعد انھوں نے منشیات کی لت چھٹکارے کے لیے مدد طلب کی۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور کے ایک ری ہیب (منشیات کی لت چھڑوانے کے ہسپتال) میں ان کا تجربہ بْرا رہا تھا اور 2009 کی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران وہ دوبارہ اس لت میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس دوران وہ بطور کرکٹ تجزیہ کار کام کر رہے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے منشیات کا استعمال مقابلوں میں ’ایڈرینالائن رش‘ کا متبادل تھا ’جسے وہ بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹورنامنٹ کے بعد ہما کی موت ہوئی اور اس پر انھوں نے یہ عادت ترک کر دی۔وسیم اکرم نے دوبارہ شادی کی تھی اور اپنی دوسرے بیوی کے ساتھ ان کی ایک نوجوان بیٹی ہے۔وسیم اکرم نے اپنی کتاب میں کیریئر کے دوران میچ فکسنگ کے الزامات کا بھی جواب دیا ہے۔ انھوں نے کسی بھی طرح کی کرکٹ کرپشن میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔سال 2000 میں پاکستانی کھلاڑی سلیم ملک اور عطا الرحمان پر میچ فکسنگ کے الزامات پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اس سکینڈل پر جسٹس ملک قیوم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وسیم اکرم کے خلاف میچ فکسنگ کے ناقابل تردید ثبوت نہیں پائے گئے تاہم شک کی بنیاد پر بورڈ کو سفارش کی گئی کہ انھیں نہ صرف قومی ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا جائے بلکہ ان کی سرگرمیوں اور مالی معاملات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس کے علاوہ اْن پر تین لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔تاہم وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب لکھنے تک یہ رپورٹ نہیں پڑھی۔ ’مجھے معلوم تھا کہ میں بے قصور ہوں۔‘’ہر چیز اس بارے میں بھی کہ اِس نے کہا، اْس نے کہا۔ میں نے کسی سے سنا ہے۔ وسیم کے کسی اور کے ذریعے پیغام بھیجا وغیرہ۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سننے میں بھی درست نہیں لگتا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور وہ سوال پوچھتے ہیں۔‘

Related Articles