وکرم ویدھا، دریشم 2: کیا بالی وڈ کا ری میک بنانے کا دور ختم ہو گیا ہے؟

دہلی ،اکتوبر۔انڈیا کی سنیما انڈسٹری بالی وڈ میں جو ہندی فلمیں بنتی ہے، وہ اکثر ملک بھر کی دیگر فلم انڈسڈیریز خاص طور پر جنوبی ریاستوں کی فلمی دنیا کی بڑی ہٹ فلموں کا ری میک ہوتا ہے۔ لیکن سٹریمنگ سروسز کا عروج اور ‘پین-انڈین’ بلاک بسٹرز کا ابھرنا اس پر کیا اثر ڈالے گا؟بالی وڈ کی تازہ ری میک فلم ساؤتھ کی فلمی انڈسٹری کی ایک سپر ہٹ تامل زبان کی فلم وکرم ویدھا ہے جس ستمبر میں سنیما ہالز میں ریلیز کیا گیا اور اس کے اچھے ریوز آئے ہیں۔یہ ان چند بالی وڈ فلموں میں سے بھی ہے جنھوں نے اس سال دنیا بھر میں ایک بلین روپے سے زیادہ کی کمائی کی ہے (حالانکہ رپورٹس کے مطابق فلم اب بھی انڈیا میں سو کروڑ کلب میں پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔)لیکن وکرم ویدھا کی ریلیز کے قریب ہی انٹرنیٹ پر کچھ حلقوں نے بالی وڈ کی فلموں کے نئے آئیڈیاز میں بظاہر ناکامی اور سکرپٹ کے لیے ساؤتھ کی فلمی انڈسٹری پر زیادہ انحصار پر بحث شروع کر دی۔دنیا بھر کی فلمی انڈسٹریز میں نئے ناظرین کے لیے کامیاب فلموں کا ری میک بنانے، اس میں نئے کاسٹ کو دوبارہ لینا اور اس کی نقل کرنے کا رجحان عام ہے۔ اس سال آسکرز میں نامزد 10 بہترین فلموں میں سے چار پہلے کی فلموں کے ری میک تھے۔ جبکہ آسکرز یافتہ فلم کوڈا، کو بھی 2014 کی فرانسیسی فلم سے اخذ کیا گیا تھا۔بالی وڈ کو بھی ری میک بنانا بہت پسند ہے۔منٹ اخبار میں شائع ایک تجزیے کے مطابق سنہ 2000 سے 2019 کے درمیان ہر تین کامیاب ہونے والی فلمیں یا تو پرانی فلموں کا ری میک تھیں، یا پہلی کی فلموں کا تسلسل تھیں یا دونوں تھی۔ اور ساؤتھ کی فلموں کے ری میک میں بالی وڈ کے سپر سٹار سلمان خان سے لے کر اکشے کمار تک نے کام کیا تھا۔لیکن جیسا کہ انڈیا کی فلمی صنعت کووڈ کی وبا کے بعد سے زوال پذیر ہے، اس پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اب انڈسٹری میں ری میک بنانے کے رحجان کے خاتمے کا وقت ہے۔
کووڈ وبا کے دوران نیٹ فلکس اور ایمیزون پرائم ویڈیو جیسے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کی سبسکرپشنز میں اضافہ دیکھا گیا، جس نے دوسری زبانوں کے مواد کو تلاش کرنے کے خواہشمندوں کے لیے غیر ہندی فلموں کی ایک نئی دنیا متعارف کروا دی۔فلمی صنعت کی تجارتی تجزیہ کار کومل نہاٹا کہتے ہیں کہ ’ساؤتھ انڈین فلمیں اتنے پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں کہ بالی وڈ کے ریمیک کی اب وہ اہمیت نہیں رہی۔’بہت سے ساؤتھ فلم انڈسٹری کے فلم ساز بھی اپنے عزائم کو وسیع کر رہے ہیں اور ملک گیر پروموشنز اور سینما گھروں میں ہندی ڈب شدہ ورڑن کے ساتھ بیک وقت ریلیز کے ساتھ بڑے پیمانے پر سنیما بینوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں (ہندی اب تک انڈیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔)رواں سال کی دو بڑی سپر ہٹ فلمیں کی جی ایف چیپٹر 2 اور آر آر آر کو اصل میں کناڈا اور تیلیگو زبان میں بنایا گیا تھا لیکن ان کے ہندی میں ڈب شدہ ورڑن نے شمالی انڈیا میں اچھا کاروبار کیا تھا۔سٹریمنگ سروسز نے بھی دوسری زبانوں میں سب ٹائٹلنگ اور ڈبنگ کرنے پر بھی زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ فلم آر آر آر کا ہندی زبان میں ورڑن، مئی میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہوا تھا اور یہ کئی ہفتوں تک سب سے زیادہ دیکھے جانے والی فلم میں شامل تھی۔نہتا کہتے ہیں کہ ‘لہٰذا فلموں کے اس دور میں جہاں تمام ڈب شدہ ورڑن ایک ساتھ اصل کے ساتھ ریلیز ہوتے ہیں، وہاں ریمیک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سب کچھ اصل ہے۔‘ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں بالی وڈ مشکلات کا شکار ہے، وہیں جنوبی انڈیا کی انڈسٹری میں نئے خیالات اور نوجوان ٹیلنٹ کی بھرمار ہے۔یہاں کامیاب فلمیں عام طور پر ہیروز کی پرجوش کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں جن میں افسانے، مزاح اور ایکشن کا امتزاج ہوتا ہے۔تاہم بالی وڈ سے اکتا جانے والے ناظرین کے پاس اور مواقع بھی ہیں جیسا کہ کناڈا زبان میں رومانوی کالج کی محبت کی کہانی کرک پارٹی سے ملیالم کے سپر ہیرو منال مرلی کی دیسی کہانی۔مسٹر نہتا کہتے ہیں کہ بالی وڈ کے فلمساز کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی جنوبی انڈیا کی فلموں کی جانب توجہ دیتے ہیں۔’فلمساز بلکل نئے خیالات پر تجربہ کرنے سے گھبراتے ہیں کیوں کہ فلم بنانا ایک مہنگا عمل ہے۔‘اس لیے فلمساز ایسی فلموں کی تلاش میں رہتے ہیں جو مقامی زبانوں میں ہٹ ہو جاتی ہیں اور پھر ان کو ہندی میں دوبارہ بنا کر وسیع پیمانے پر پیش کیا جاتا ہے۔نہتا کا کہنا ہے کہ ’کسی بات کی گارنٹی تو نہیں ہوتی تاہم کیوں کہ یہ ایک آزمایا ہوا فارمولا ہے اس لیے فلمسازوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر ایک فلم مقامی طور پر کامیاب ہوئی ہے تو یہ ہندی میں بھی اچھا بزنس کرے گی۔‘تاہم اس وقت یہ فارمولا اتنا کامیاب نہیں ہے۔ رواں سال دو جنوبی انڈین فلموں کا ری میک، جرسی اور بچن پانڈے، بری طرح ناکام ہوا ہے۔ گڈ لک جیری اور چٹ پٹلی، جن کو سٹریمنگ سروس پر جاری کیا گیا، بھی کچھ خاص نہیں چل سکیں۔فلمی ناقد بردواج رنگن کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے تک کسی فلم کے ری میک کو دیکھنا یا بنانا ایک اچھوتا خیال تھا کیوں کہ اس سے دوسری زبان میں بنی فلم تک رسائی حاصل ہوتی تھی۔
تاہم ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی بنا سوچے سمجھے ایسا نہیں کرے گا جب تک کہ ’ری میک بنانے کے لیے کوئی حقیقی وجہ نہ ہو۔‘وہ وکرم ویدھا کی مثال دیتے ہیں، جس کی اصل فلم کو کئی لوگ یو ٹیوب پر پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔اس فلم کا ہندی ری میک تامل میں بنی اصل فلم جیسا ہی ہے تاہم اس میں ہریتک روشن اور سیف علی خان کو مرکزی کرداروں کے لیے چنا گیا۔رنگن کا کہنا ہے کہ ’دیکھنے والے کے لیے کہانی تو وہی پرانی ہے تو پھر لوگ ایسی چیز کے لیے پیسہ کیوں خرچ کریں گے جو وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔‘جنوبی انڈیا کی فلموں کی اپنے علاقوں سے باہر پسندیدگی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندی ناظرین اب جنوبی سٹارز اور اداکاروں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔کاناڈا کے یش، تیلگو کے الو ارجن اور دیگر اداکار اب اپنی ریاستوں سے باہر بھی جانے پہچانے چہرے بن چکے ہیں۔فلمی ناقد انوپاما چوپڑا کا خیال ہے کہ یہ وقت سے پہلے کے خدشات ہیں اور بالی وڈ شائقین اب بھی ایک بلاک بسٹر ری میک کو پسند کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ ری میک کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ فلمساز اصلی فلم میں طرح نیا پن لاتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اسی چیز کو دوبارہ چھاپ دیں بلکہ کچھ اپنی سوچ لائیں، کچھ نیا پن لائیں۔‘بالی وڈ کے پاس اب بھی وقت ہے کیوں کہ جنوبی انڈیا کی کئی فلموں کا ری میک اب بھی بن رہا ہیجن میں سورارائی پوترو نامی ایک تامل فلم شامل ہے جو ایمیزون پر دکھائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ درشم ٹو جو ایک ملیالم فلم کا ری میک ہے، نومبر میں ریلیز ہونے جا رہی ہے۔چوپڑا کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی اچھا ری میک بنائے گا تو لوگ دیکھیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر ایسا نہیں ہو رہا۔‘

Related Articles