سابق اداکارہ سومی علی نے ’ذہنی مریض‘ کس کو کہا اور اگنی ہوتری کس پر غصہ ہیں؟
لندن/ممبئی،اگست۔’یہ عورتوں پر تشدد کرتا ہے، صرف میں ہی نہیں کئی اور بھی ہیں، اس کی پوجا کرنا بند کریں پلیز ، آپ کو نہیں معلوم یہ ایک بیمار ذہن کا انسان ہے۔‘یہ پوسٹ بالی وڈ کی سابق اداکارہ سومی علی نے انسٹاگرام پر لگائی ہے، اپنی اس پوسٹ میں انھوں نے نہ کسی کو ٹیگ کیا ہے اور نہ ہی کسی کا نام لیا ہے لیکن سلمان خان کی 1989 کی فلم ’میں نے پیار کیا‘ کا ایک پوسٹر ضرور شیئر کیا ہے۔سومی علی ناصرف بالی وڈ فلموں میں کام کر چکی ہیں بلکہ ایک مصنف اور ایکٹیوسٹ بھی ہیں اور ’نو مور ٹیئرز‘ نامی ایک فلاحی تنظیم بھی چلاتی ہیں۔سومی علی کے بالی وڈ میں آنے کا مقصد سلمان خان ہی تھے، سومی فلم ’میں نے پیار کیا‘ دیکھ کر سلمان کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھیں اور ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں، اسی لیے انھوں نے بالی وڈ کا رخ کیا جہاں تقریباً ایک سال بعد وہ سلمان سے ملیں اور ان کے درمیان دوستی ہو گئی۔90 کی دہائی میں دونوں نے تقریباً 10 سال تک ایک دوسرے کو ڈیٹ کیا لیکن یہ رشتہ تلخی کے ساتھ ختم ہوا اور سومی نے بالی وڈ چھوڑ دیا۔یہ پہلی بار نہیں جب سومی نے اس طرح کی پوسٹ لگائی ہو۔ اس سے پہلے بھی ایک پوسٹ میں سومی نے لکھا تھا ’بالی وڈ کا ہاروی وائنسٹائن ایک دن بے نقاب ہو گا۔‘اس وقت بھی انھوں نے سلمان خان کی ہی فلم کا گانا شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ’بالی وڈ کے ہاروی وائنسٹائن تم ایک دن بے نقاب ہو گے اور جن خواتین کے ساتھ تم نے زیادتی کی وہ سامنے آکر سچ بتائیں گی۔‘ تاہم بعد میں سومی نے اپنی یہ پوسٹ ہٹا دی تھی۔
کشمیر فائلز بنانے والے وویک اگنی ہوتری غصے میں کیوں ہیں؟’کشمیر فائلز ‘ بنانے والے وویک اگنی ہوتری اس وقت فلسماز انوراگ کشیپ سے شدید ناراض ہیں جس کی وجہ انوراگ کشیپ کا وہ حالیہ انٹرویو ہے جس میں کشیپ آسکر میں انڈین فلموں کو نامزد کرنے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔انوراگ کشیپ کا کہنا تھا کہ اگر ’آر آر آر جیسی فلموں کو آسکر بھیجا کیا گیا تو انڈیا فائنل پانچ میں آ سکتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ آسکر میں بھیجنے کے لیے کونسی فلم کا انتخاب کیا جائے گا ، امید ہے کہ یہ فلم ’کشمیر فائلز نہیں ہوگی۔‘انوراگ کے اس انٹرویو پر وویک کافی تلملائے اور جواب میں ٹوئٹر پر پوسٹ لکھی ’نسل کْشی کو نظرانداز کرنے والے بالی وڈ نے فلم دوبارہ کے فلمساز کی قیادت میں کشمیر فائلز کے خلاف مہم شروع کر دی ہے، مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ میں اس سے زیادہ تنقید برداشت کر چکا ہوں۔‘یہاں یہ نہیں معلوم کہ وویک نے انوراگ کا نام کیو ں نہیں لیا جنکی فلم دوبارہ اسی ہفتے ریلیز ہوئی ہے۔انڈین روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے وویک نے کہا ’یہ لوگ کئی سال سے میرے خلاف ایک مہم چلا رہے ہیں، آپ اپنی پسند بتا سکتے ہیں لیکن یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ کشمیر فائلز آسکر میں نہیں جانی چاہیے۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ آسکر ان کے لیے کامیابی کا پیمانہ نہیں ہے اس لیے انھوں نے کبھی آسکر کی خواہش نہیں رکھی۔اب وویک آسکر کی خواہش رکھتے ہوں یا نہیں یہ الگ بات ہے ہاں انوراگ کا یہ بیان فلم کو آسکر بھیجنے کی ایک مہم کے آغاز کی وجہ بن گیا ہے۔ اسی لیے اب سوشل میڈیا پر کشمیر فائلز آسکر ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔ویسے انوراگ کشیپ اْن چند فلسمازوں یا بالی وڈ کی بڑی ہستیوں میں سے ایک ہیں جو انڈیا کے موجودہ حالات میں اپنی بیباک رائے دینے سے نہیں کتراتے، چاہے وہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ہو یا پھر شہریت سے متعلق متنازع قانون یا پھر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طالب علموں پر ہونے والا حملہ۔انوراگ نے کھل کر ان اہم موضوعات پر اپنی رائے ظاہر کی اور اس کے نتیجے میں نہ صرف ان کو ٹرولز کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے خلاف انکم ٹیکس کے چھاپے پڑے اور ان کے گھر والوں کو ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔انوراگ کو اتنا ٹرول کیا گیا کہ ان کو اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنا پڑا تھا۔
لال سنگھ چڈھا کا بائیکاٹ:ایسے ہی لوگوں نے فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی تھی۔ اب فلم کی ناکامی کے لیے اس مہم کو ذمہ دار ٹھہرایا جائِے یا خود فلم کو ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔انڈسٹری میں جہاں کسی بھی فلم کی کامیابی کو باکس آفس کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے تو اس حساب سے تو کمال کی یہ فلم کوئی خاص کمال نہیں کر پائی اور ایک ہفتے میں 49 کروڑ ہی کما پائی ہے لیکن اس وقت فلموں کے بائیکاٹ کی نئی روایت کے بارے میں بحث ضرور چھڑ گئی ہے۔فلسماز وجے دیورا کونڈا نے، جو جنوبی انڈیا کی فلموں کا ایک مشہور نام ہیں، انڈیا ٹوڈے کے ساتھ انٹرویو میں ایک پتے کی بات کہی ہے کہ کسی بھی فلم کے سیٹ پر ہیرو یا ہیروئن سے نظر ہٹائیں تو وہاں ہزاروں لوگ کام کرتے نظر آئیں گے اور کسی بھی فلم کا بائیکاٹ سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں اور ان کے خاندان والوں اور پھر ملک کی معیشت کو ہوتا ہے۔کوئی بھی فلم ان ہزاروں لوگوں کا روزگار ہے، اس سے ان کے گھر چلتے ہیں۔ کسی بھی ہیرو کی فلم کے بائیکاٹ سے محض اس ہیرو کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ فلم کی پروڈکشن سے لیکر ہر مرحلے تک اس میں ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہ نقصان ان سب کا ہے۔ادھر اداکار ارجن کپور نے بھی بائیکاٹ کے اس کلچر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ویب سائٹ ’بالی وڈ ہنگامہ‘ کے فریدوں شہر یار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے اس کلچر کو کافی برداشت کیا ہے اسی لیے بات یہاں تک پہنچی، اسے روکنے کے لیے انڈسٹری کو متحد ہو کر کچھ اقدام کرنے ہوں گے۔‘