دل والے دلہنیا لے جائیں گے: 27 برس بعد راج کے کردار کے لیے سفید فام ہیرو پر اعتراضات
ممبئی/نیویارک،اگست۔امریکہ کی مشہور تھیٹر کمپنی براڈوے بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کی کہانی ایک میوزیکل پلے کی شکل میں پیش کرنے جا رہی ہے۔ لیکن اس پلے میں شاہ رخ خان کے کردار ’راج‘ کے لیے ایک سفید فام اداکار کے انتخاب پر سوال اٹھ رہے ہیں۔’ڈی ڈی ایل جے میوزیکل‘ کے نام سے تیار کیے جانے والے اس ڈرامے میں ہیرو کے انتخاب پر بالی وڈ کے مداح خوش نہیں ہیں۔اس کردار کا نام بھی راج سے بدل کر روگ رکھ دیا گیا ہے جسے نسلی امتیاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اس فلم کو عام طور پر ’ڈی ڈی ایل جے‘ نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ فلم میں راج کا کردار شاہ رخ خان نے نبھایا اور اسی کردار نے شاہ رخ خان کو بطور ’رومانس کنگ‘ متعارف کروایا تھا۔ اسے شاہ رخ کے اب تک کے سب سے متاثر کن کرداروں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔سنیما اور تھیٹر کی دنیا میں کسی خاص نسل سے وابستہ کردار میں کسی سفید فام شخص کو کاسٹ کیے جانے کے عمل کو ’وائٹ واشنگ‘ کہا جاتا ہے۔ڈی ڈی ایل جے کے مداح اس بات پر بھی حیران ہیں کہ اس طرح کی بات سنہ 2022 میں سامنے آ رہی ہے جب دنیا بھر میں نسلی امتیاز کے خلاف سخت آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔مقبول انڈین شیف وکاس کھنا نے ٹؤیٹ کیا کہ اس فلم کے سٹیج پر پلے کے روپ میں دکھائے جانے کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی تھی لیکن اب وہ بہت مایوس ہیں۔ وکاس کے ٹوئٹر پر 22 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ڈی ڈی ایل جے کی 20 سالہ مداح پریدھی پوری نے کہا ’راج کا کردار وائٹ واش کیا جانا ہر اعتبار سے بہت افسوس ناک بات ہے۔‘پریدھی کا خیال ہے کہ فلم میں بیرون ملک سے جو تعلق دکھایا گیا ہے وہ اپنے آپ میں خاص اور یادگار ہے۔فلم کے دونوں ہی مرکزی کردار انڈیا سے باہر رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کسی اور ملک میں رہنے کا احساس کیا ہوتا ہے، یہ فلم میں بہت زبردست انداز میں دکھایا گیا ہے۔‘پریدھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’بیرون ممالک رہنے والے انڈینز نے اس فلم میں اسی کشمکش کو محسوس کیا جو خود ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس دور کے لیے یہ کتنا آنکھیں کھول دینے والا تجربہ رہا ہو گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی فلم کی ری میک کے ساتھ آپ کو توقع رہتی ہے کہ اس بار کہانی اور بھی بہتر انداز میں سنائی جائے گی۔ اور چیزوں کو موجودہ دور کے مطابق سدھارا جائے گا۔‘پریدھی کا خیال ہے کہ امریکہ کے ایشیائی اداکار چاہیں گے کہ ایسے کردار کے لیے ان کا انتخاب ہو اور اس جگہ وہ اپنی تہذیب کی نمائش کریں جہاں تاریخی طور پر ایسا نہیں ہوا ہو اور ایسے کردار کے لیے ان کا ہی انتخاب کیا جانا چاہیے۔پریدھی کا خیال ہے کہ ’ڈی ڈی ایل جے کوئی معمولی فلم نہیں تھی۔ اس فلم نے ہمیں اپنے والدین اور ان کے والدین کو بھی ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد کی۔ اور میرا خیال ہے کہ آگے بھی یہ فلم ایسا ہی کرے گی۔‘ڈی ڈی ایل جے کا شمار بالی وڈ کی سب سے شاندار رومانوی فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا ساتھ حاصل کرنے کے لیے اس کے خاندان کے بزرگوں کا دل جیت لے گا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کی اس کوشش میں فلم دیکھنے والے بھی اس کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔شاہ رخ خان کا یہ کردار فلم ریلیز ہوتے ہی ہٹ ہو گیا۔ اور یہیں سے ان کے ’کنگ آف رومانس‘ ہونے کے سفر نے پرواز بھری۔حالانکہ فلم کے ڈائریکٹر آدتیہ چوپڑا نے پہلے اس کردار کے لیے شاہ رخ کو نہیں چنا تھا۔ وہ اس کردار کو غیر ملکی شخص کے طور پر دکھانا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہالی وڈ اداکار ٹام کروز کے بارے میں بھی غور کیا گیا تھا۔فلم کا براڈ وے پلے ان کے اس خواب کی تکمیل ہو سکتا ہے جو انھوں نے 27 سال قبل فلم بنانے سے پہلے دیکھا تھا۔فلم میں سمرن کا کردار کاجول نے ادا کیا تھا۔ راج اور سمرن ان تمام جوڑوں کے لیے مثال بن گئے جو ایک دوسرے کا ساتھ حاصل کرنے کے لیے خاندان والوں کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار تھے۔اس فلم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی ممبئی کے کچھ سینیما گھروں میں یہ فلم دکھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سوئٹزرلینڈ میں ایک پل کو ڈی ڈی ایل جے برِج کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس پْل پر فلم کا پوسٹر آج تک لگا ہوا ہے۔پلے میں راج کا کردار نبھانے کے لیے اداکار آسٹن کولبی کا نام سامنے آنے کے بعد کولبی نے اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ انھیں اصل فلم کے بارے میں نہیں پتا تھا لیکن محبت کی یہ خوبصورت داستان انھیں بہت زبردست لگی۔انھوں نے خبر رساں ادارے ورائیٹی کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ’میں وہ راج بالکل نہیں ہوں جس سے شاہ رخ خان نے آپ کو محبت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور نہ ہی میں وہ بننے کی کوشش کروں گا۔‘شاہ رخ خان کے کچھ مداحوں نے سوشل میڈیا پر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ یہ پلے دیکھنے نہیں جائیں گے۔وکاس کھنا نے یہ بھی ٹوئیٹ کیا کہ ’انڈیا کی محبت کی ایک بے حد خوبصورت داستان کو آخر کیوں برباد کیا جا رہا ہے۔ مجھے وہ دور یاد ہے جب مجھے میری رنگت کے لیے ہراساں کیا گیا تھا۔ مجھے یہ سب ہوتے دیکھ کر تکلیف ہو رہی ہے۔‘اس براڈوے پلے کی پروڈیوسر انڈین فلم کمپنی راج فلمز ہے۔ اس بارے میں بی بی سی کے سوالوں کے ابھی تک انھوں نے کوئی جواب نہیں دیے۔یہ میوزیکل پلے سین ڈیئیگو میں ستمبر میں دکھایا جائے گا جس کے بعد اسے براڈ وے کے سنہ 2022 اور 2023 کے سیزن میں پیش کیا جائے گا۔