حوثی باغی بچوں کو بطور فوجی نہ رکھنے پر آمادہ، دستاویز پر دستخط

صنعاء،اپریل۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ برسوں سے ہزاروں بچوں کو بطور فوجی استعمال کرنے والے یمن کے حوثی باغی اس بات پر آمادہ ہو گئے ہیں کہ آئندہ کسی کم عمر بچے کو بطور جنگجو استعمال نہیں کریں گے۔حوثیوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک ایکشن پلان پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت بچوں کو پرتشدد تنازع میں ملوث کرنے، ان پر تشدد کرنے، معذور کرنے یا انہیں قتل کرنے کی ممانعت ہو گی۔ اس دستاویز کے تحت سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے بھی بند کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی ترجمان سٹیفنی ڈوجارک نے کہا ہے کہ حوثیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے جنگجوؤں میں بچوں کی نشاندہی کر کے چھ مہینے کے اندر خودسے علیحدہ کر دیں گے۔حوثیوں کے ڈپٹی وزیر خارجہ حسین الایزی اور اقوام متحدہ کے بچوں کی ایجنسی کے نمائندے، فلیپ ڈوامیول نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں میڈیا کے سامنے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ حوثیوں نے اس معاہدے کو بچوں کی حفاظت کا منصوبہ قرار دیا۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت، جو فی الوقت جلاوطنی میں کام کر رہی ہے، نے بھی 2014 کے بعد سے ایسے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔اقوام متحدہ کی اعلیٰ عہدے دار ورجینیا گامبا، جو جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کی بہبود کا کام کرتی ہیں، نے حوثیوں کے اس اقدام کو ایک مثبت اور حوصلہ افزا کام قرار دیا ہے۔ورجینیا گابا نے جنہوں نے نیویارک میں اس معاہدے پر بطور گواہ دستخط کیے ایک بیان میں کہا کہ ’’یمن میں بچوں کی بہبود اور حفاظت کے لیے حقیقت پسندانہ نتائج حاصل کر کے اقدامات کے لیے اس ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد بہت ضروری ہے۔‘‘اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے کہ 35 سو کے قریب بچے یمن میں جاری تنازعے میں بطور جنگجو شامل ہیں، خبروں کے مطابق جب کہ ایک حوثی عسکری اعلیٰ عہدے دار نے 2018 میں بتایا تھا کہ ان کا گروہ تب تک 18 ہزار سے زائد بچوں کو بطور جنگجو استعمال کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے افراد جو بطور بچہ سپاہی کام کر چکے تھے نے خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ دس دس سال کے بچوں کو بھی بطور جنگجو رکھا گیا تھا۔اس وقت حوثیوں کے عسکری ترجمان نے ان کی تنظیم کی جانب سے منظم طور پر بچوں کو بطور سپاہی رکھنے کی تردید کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ اسی تنطیم کی جانب سے ایسے احکامات جاری کیے گئے تھے کہ اٹھارہ برس سے کم عمر بچوں کو بھرتی نہ کیا جائے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اب تک اس تنازع میں 10 ہزار 2 سو سے زائد بچے ہلاک یا معذور ہوئے ہیں۔یمن میں جاری شورش 2014 میں اس وقت جاری ہوئی جب ایران کی پشت پناہی کے ساتھ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور ملک کی حکومت جلاوطنی پر مجبور ہو گئی۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد، جس میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے نے 2015 میں یمن کی حکومت کا اقتدار بحال کرنے کے لیے حوثیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔جنگ پر نظر رکھے ہوئے مبصرین کے مطابق اب تک اس تنازع میں 14 ہزار 5 سو شہری اور ڈیڑھ لاکھ سے زیاد جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے دنیا کے بدترین انسانی المیوں میں سے ایک نے جنم لیا ہے۔

Related Articles