بیرون ملک ہندوستان کی توہین کرنے والوں کو روکنا ہوگا: دھنکھڑ

نئی دہلی، اپریل۔ نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے بیرون ملک ہندوستان کی توہین کرنے والے لوگوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رجحان کو روکا جانا چاہئے۔مسٹر دھنکھڑ نے جمعہ کو یہاں سوامی دیانند کے 200ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب لوگ بیرون ملک جا کر ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ درد ہوتا ہے… کچھ تکلیف ہوتی ہے جب ہمارے ہی کچھ لوگ بیرون ملک جا کر ابھرتے ہوئے ہندوستان کی تصویر کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر روک لگائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل سوامی جی کے سواراجیہ کے تصور کے خلاف ہے۔ سوامی جی کی سوچ اس وقت تھی جب بیرونی طاقتیں ہم پر حاوی تھیں۔نائب صدر جمہوریہ نے کہا، سمجھ میں نہیں آتا سچے دل سے ہندوستان اور ہندوستانیت میں یقین رکھنے والا شخص ہندوستان کی بہتری کے بارے میں سوچے گا اور اصلاح میں تعاون کرنے کے بارے میں سوچے گا۔ ممکن ہے کہ کوتاہیاں ہوں۔ ان کوتاہیوں کو دور کرنے کے بارے میں سوچے گا لیکن بیرون ملک جاکرتنقید کرنا اوراداروں کے اوپر سخت تبصرہ کرنا ہرمعیار پرحدود سے باہر ہے۔مسٹردھنکھڑ نے کہا کہ ستمبر 2022 میں ہندوستان دنیا کی پانچویں اقتصادی سپر پاور بنا۔ اس کارنامے کا اندازہ لگائیں کہ جن لوگوں نے ہم پر صدیوں حکومت کی، ان کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں نمبر پر آگئے۔ دنیا کے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ اس دہائی کے اختتام تک ہم دنیا کی تیسری سپر پاور بن جائیں گے۔تقریب میں ریاستی وزیر دیو سنگھ سنگھ چوہان، پتنجلی یوگ پیٹھ ہریدوار کے سوامی رام دیو، ایم پی ستیہ پال سنگھ، ایم پی سوامی سومیدھانند، پرمارتھ نکیتن، رشیکیش کے سوامی چدانند سرسوتی اور مسٹر دھنکھڑ کی اہلیہ ڈاکٹر سدیش دھنکھڑ بھی موجود رہیں۔ تقریب میں سوامی دیانند سرسوتی پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔مسٹر دھنکھڑ نے کہا کہ کچھ غیر ملکی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کا مقصد ہندوستان کی بڑھتی ہوئی رفتار کو روکنا ہے۔ امریکہ میں بھی ایسے ادارے ہیں۔ ہندوستانی صنعت کار، ارب پتی اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی نیت خراب ہے لیکن شاید یہ بات ان کی توجہ سے نکل گئی ہے۔ کروڑوں کی امداد کی وجہ سے وہاں اپنے ہی کچھ لوگ ایسے پروگرام بناتے ہیں کہ ہم ہندوستان کو داغدار کردیں۔ ان اداروں کے اندر کئی ممالک کے طلباء اور اساتذہ موجود ہیں، لیکن یہ نامناسب کام ہمارے ہی کچھ لوگ کیوں کرتے ہیں، دوسرے ممالک کے لوگ کیوں نہیں کرتے؟ یہ بہت سوچنے اور غور کرنے کا معاملہ ہے۔

Related Articles