افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کو تین ماہ مکمل، نصف سے زائد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا
کابل،نومبر۔افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ دارالحکومت کابل میں طالبان نے شدت پسند تنظیم ‘داعش’ کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر سیکیورٹی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے افغانستان ڈیبورا لائنز کا کہنا ہے کہ افغانستان تباہی کے دہانے پر ہے۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کو مالی امداد فراہم کرنے میں تیزی لائے۔بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے مزید بتایا کہ یہ وقت افغانستان کو تنہا چھوڑنے کا نہیں ہے۔انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موسم سرما میں افغان عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔تاہم انھوں نے واضح کیا کہ یہ تباہی قابل تدارک ہے کیوں کہ اس کی بنیادی وجہ طالبان پر مالی پابندیاں ہیں جو کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد عالمی برادری نے لگائیں۔یاد رہے کہ طالبان کے رواں سال اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد عالمی مالیاتی اداروں اور امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے نو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اثاثوں کو منجمد کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان خوراک کی قلت کے دہانے پر ہے۔رپورٹ کے مطابق نصف سے زائد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے اور موسم سرما کے شروع ہو جانے کے بعد افغانستان میں آباد افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جس کے بعد شہری اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی جانب تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔کابل میں امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کی خاطر طالبان اہل کاروں کو صبح سے شام اور شام سے صبح یعنی 24 گھنٹے ناکہ بندیوں، چیکنگ اور گشت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔سیکیورٹی پر زیادہ توجہ دینے کے باعث اگرچہ امن و امان کی صورت حال میں قدرے بہتری آ چکی ہے تاہم اقتصادی حالات مسلسل ابتری کی طرف جا رہے ہیں۔ایسے حالات میں عوام کی اولین ترجیح اب بھی محفوظ مقامات پرمنتقل ہوکر وہاں سکونت اختیار کرنا ہے۔محمد امین کابل شہر کے وسط میں گھڑی بیچنے کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امن اور روزگار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایسے امن کا وہ کیا کریں گے جس میں انھیں روزگار میسر نہ ہو؟ان کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ دور حکومت میں وہ روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے تک کی مزدوری کر لیتے تھے۔ تاہم اب دن بھر میں بمشکل 50 روپے ہی کماتے ہیں۔ان کا کہا کہنا تھا کہ موسم سرما سر پر ہے اور وہ اپنے بچوں کے لیے گرم کپڑے اور رضائیاں لینے کی قوت نہیں رکھتے ہیں۔طالبان معیشت کی سنگین صورت حال کا ذمہ دار مغربی ممالک کو ٹھیراتے ہیں۔پاکستان کے دورے پر آئے افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کے لیے مختص امداد کیوں روکی؟اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں بات کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ اس وقت امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے عسکری مخالف نہیں ہیں اور دوحہ امن معاہدے کے بعد سے طالبان نے امریکہ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود کوئی واضح اور مستند دلیل بھی نہیں ہے کہ جس کی بابت افغانستان کے اثاثے منجمند کیے جائیں۔ جو کہ ایک مناسب عمل نہیں ہے۔امیر خان متقی کا مزید کہنا تھا کہ انسانی فلاح و بہبود کو سیاسی مسائل کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان نے کابل شہر میں 40 ہزار افراد کے لیے ‘کام کے بدلے اناج’ اسکیم کا اجرا کیا ہے۔صدام مہمند اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کا آغاز گزشتہ دور حکومت میں ہوا تھا تاہم کرونا وبا کے باعث اسے روک دیا گیا تھا۔ اب طالبان نے اسے دوبارہ شروع کر دیا ہے جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر ہر فرد کو کام کے بدلے 10 کلو گندم دی جاتی ہے۔صدام مہمند کے مطابق کابل شہر میں اس وقت 41 ہزار افراد اس اسکیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔تاہم بعض کارکنان کا کہنا ہے کہ انھیں دس دن بعد اناج دینے کے بعد فارغ کر دیا جاتا ہے۔ صدام مہمند اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ملک میں بے روزگاری کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں۔پروجیکٹ ڈائریکٹر کا مزید کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کے تین اہداف ہیں۔ جن میں کابل شہر کو برساتی پانی کے پیش نظر ممکنہ سیلاب سے بچانا۔ دوسرا ہدف کابل کے رہائشیوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا۔ جب کہ تیسرا ہدف وزارتِ زراعت کا ان علاقوں میں شجر کاری کو دوام دینا ہے جس سے نہ صرف کابل شہر کی خوب صورتی میں اضافہ ہو گا بلکہ ماحول پر بھی بہتر اثر پڑے گا۔کابل میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اور یونیورسٹی کے استاد سلیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ طالبان کے تین ماہ کے دور حکومت میں جہاں عوام کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے تاہم دوسری جانب عوام کو تحفظ کے لحاظ سے سکون حاصل ہوا ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کابل شہر میں کوئی بھی شخص کھلے عام موبائل فون باہر نہیں نکال سکتا تھا۔ اسی طرح خواتین کے پرس چھیننے جیسے واقعات بھی عام تھے۔ اس جیسے واقعات اب رونما نہیں ہو رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ کابل اور جلال آباد میں دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں تاہم ان کی شدت ویسی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف سرائیت کر جائے۔سلیم کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ملک میں امن و امان اور سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی کوششیں کر رہے ہیں تاہم اقتصادی حالات میں نکھار لانا ان کے بس سے باہر ہے کیوں کہ افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بیرونی امداد کے مرہون منت رہا ہے اور بدقسمتی سے جو امداد افغانستان کے عوام سے مغربی ممالک نے کی تھی، وہ بھی منجمند کر دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کا قیام افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج تھا جو کہ تقریباً حل ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ عالمی برادری افغانستان کی معیشت بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ یہ ملک آئندہ کسی دہشت گرد گروہوں کی آماج گا نہ بن سکے۔