ارمان لوکل ٹرین تو سرفراز سپر فاسٹ
ممبئی، جون ۔ممبئی کے اسکول کرکٹ اور ‘گراؤنڈز میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کے درمیان اکثر مسابقت دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کے 200، 300، 500 رن بنانے کی خبریں اکثر کرکٹ کے گلیاروں میں گونجتی رہتی ہیں۔ اتنے رن بنانے والے کھلاڑی ہی ممبئی کے مستقبل کے کھلاڑی بن کر ابھرتے ہیں، لیکن ان کھلاڑیوں میں اسکول کرکٹ کے زمانے میں زبردست مسابقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسی ہی مسابقت ایک وقت ساتھ میں کرکٹ شروع کرنے والے ممبئی رنجی ٹیم کے رکن سرفراز خان اور ارمان جعفر میں بھی دیکھنے کو ملتی تھی۔ تاہم، اتنے برسوں کے بعد، اب وہ مسابقت جئے ویرو کی جوڑی میں بدل گئی ہے۔ ارمان کو لوکل ٹرین توسرفراز کو سپر فاسٹ ٹرین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ دونوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز 2008 میں کیا تھا۔ مسابقت اتنی تھی کہ اگر ایک کھلاڑی 200 رن بناتا تو دوسرے پر اس سے زیادہ رن بنانے کا دباؤ ہوتاتھا۔ ایک 300 بناتا تو دوسرے پر 400 رنز بنانے کا دباؤرہتا تھا۔ یہ دباؤ صرف ان پر ہی نہیں، پیچھے خاندان کا بھی ہوتاتھا۔ دونوں کے والد ان کے کوچ رہے ہیں۔ اس صورت میں یہ دباؤ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارمان کا نام پہلی بار 2010 میں انڈر 14 جائلز شیلڈ ٹرافی میں 498 رنز بنانے کے بعد روشنی میں آیاتھا۔ ایسا ہی کچھ اس سے قبل 2009 میں سرفراز نے کیاتھا۔ جب انہوں نے ہیرس شیلڈ کپ میں 421 گیندوں میں 439 رن بناکرسچن ٹندولکر کا 45 سال پرانا ریکارڈ توڑدیاتھا۔ سرفراز نے کہا، ’’میں ارمان سے پہلی بار 2008 میں ملا تھا۔ یہ پہلے سے ہی رضوی اسکول میں تھا اور میں ایک سال بعد آیا تھا۔ وہاں سے ہم دونوں نے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ ہہ کیپنگ پیڈ پہن کر بلے بازی کرتاتھا کیونکہ بیٹنگ پیڈ بہت بڑے ہوتے تھے۔ دن بھر سائیڈ میں ناکنگ کرتارہتا تھا۔ کلیم سراس کے والد ہیں۔ میچ چل رہاہوتا تب بھی یہ ناکنگ کرتارہتاتھا۔ تومیری ملاقات اس سے ایسے ہی ہوئی۔ بھلے ہی دونوں کسی مسابقت کی بات سے انکار کرتے ہوں، لیکن ایک وقت تھا جب والد کے دباوکی وجہ سے یہ کھلاڑی پورے دن پچ پر کھڑے رہتے تھے، کیونکہ ایک دوسرے سے کم رن بنانے پر ان کی شامت آنی طے ہوتی تھی۔ سرفراز نے بتایا کہ مسابقت تونہیں رہتی تھی، بس اتنا تھا کہ کون زیادہ رن بنائے گا۔ ارمان کے والد تومارتے نہیں تھے لیکن پرتھوی اور میرے والد توبہت پٹائی کرتے تھے۔ اس لیے ہم یہی سوچتے تھے کہ رن بنانے ہی ہوں گے۔‘‘ان کے درمیان بانڈنگ اتنی ہے کہ آج یہ جے ویرو کی جوڑی ایک دوسرے کو سلو لوکل ٹرین اورفاسٹ ٹرین کے نام سے بلاتے ہیں۔ دوستی اتنی گہری ہوگئی کہ جب بھی ہوٹل میں پہنچتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کمرہ ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہو، تاکہ یہ ایک دوسرے کے کمروں میں جا سکیں۔ جے کی طرح ارمان بھی کم ہی بولتے ہیں اورویروکی طرح سرفراز رکنے کا نام نہیں لیتے۔ سرفراز نے کہا، ’’ارمان توآج بھی ایسے ہی ہے، سلو کھیلتا ہے۔ ہم اسے سلو لوکل کہتے تھے کیونکہ ہہ تب بھی آرام سے بیٹنگ کرتا تھا اور اب بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ ہم لوگ آؤٹ ہوجاتے تھے لیکن ارمان کا حال یہ تھا کہ ایک وکٹ جلدی گر جاتا تھا تو یہ تیسرے نمبرپر پورے دن بیٹنگ کرتارہتاتھا۔ انڈر 14 میں 101، 105 پر یہ دن کے آخر تک ناٹ آؤٹ رہتاتھا۔ ارمان نے کہا کہ میرے گھر والوں کی طرف سے رن بنانے کا دباؤ نہیں رہتاتھا اور نہ ہی کوئی مسابقت رہتی تھی کہ وہ زیادہ رن بنائے گا یا میں۔ وہ صرف اپنی بیٹنگ کرتا تھا، وہ پہلے بھی تیز کھیلتا تھا اور اب بھی تیز کھیلتا ہے، تویہ سپرفاسٹ ٹرین ہے۔ جب ہم ہوٹل میں ہوتے ہیں توہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہی کمرہ لیں۔ حقیقت میں اسکول کے وقت سے اب ہماری بانڈنگ بہت اچھی ہوگئی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو بہت اچھے سے سمجھتے ہیں۔ دونوں کھلاڑی اب ایک دوسرے کے کھیل کا احترام کرنے لگے ہیں۔ دونوں کو معلوم ہے کہ اسکول کے زمانے سے کس کا کھیل پروان چڑھا ہے۔ وہ آج کس طرح ممبئی کی رنجی ٹیم تک پہنچے ہیں۔ سرفراز کہتے ہیں، میں اڈیشہ کے خلاف میچ میں ہیٹ ٹرک والی گیند پرآوٹ ہوا، لیکن پھر ارمان نے انتہائی اہم 125 رنز بنائے۔ ارمان کے ساتھ بلے بازی کی بات کی جائے تو کچھ بھی مختلف نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اسکول کا کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ سرفراز سے جب پوچھا گیا کہ وہ اتنے برسوں میں ارمان کے اندر کیاتبدیلی دیکھی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘اتنے سالوں کے بعد میں نے ارمان میں صرف ایک ہی چیز دیکھی کہ اس نے اب چھکے مارنا شروع کر دیے ہیں (ہنستے ہوئے)۔ میں نے دیکھا کہ ارمان اب بہت تیز کھیلنے لگاہے۔ ارمان سے جب پوچھا گیا کہ سرفراز کے بارے میں سب سے خاص بات کیا ہے تو ارمان کا کہنا تھا کہ ‘ٹیم میں حالات کیسے بھی ہوں سرفرازرہے گا تو ماحول کبھی بھی سنجیدہ نہیں ہوسکتا ہے۔