چین کی بدلتی خارجہ پالیسی: ’وقت کا انتظار کرو‘ سے ’وولف واریئرز‘ تک
چین دنیا بھر میں اپنے سفارتکار کن بنیادوں پر تعینات کرتا ہے؟
بیجنگ،نومبر.ڈینگ ڑیاؤپنگ کی ’تاؤگوانگ یانگھوئی‘ (کم پروفائل رکھو یا خاموش رہو اور وقت کا انتظار کرو) کی پالیسی سے لے کر شی جن پنگ کی بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے تک، چینی سفارت کاری میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔بیرون ممالک میں چین کے سفیر اب متنازع مسائل پر بیجنگ کا دفاع کرنے اور اس کے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے سفارت کاری کا ایک جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں ’وولف واریئرز‘ کہا جا رہا ہے، جو کہ سنہ 2015 کی ایک محب وطن فلم سے لی گئی ایک اصطلاح ہے۔چین کے فرانس میں سفیر لو شائے کہتے ہیں: ’ہماری خود مختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی حالات میں تبدیلیاں اور ہماری اپنی طاقت میں تبدیلیاں دراصل سفارتی انداز میں تبدیلی کی بنیادی وجوہات ہیں۔‘سفارت کار جو وزارت خارجہ میں پچاس کی دہائی میں جونیئر مترجم ہوا کرتے تھے اب چین کے عالمی مفادات کے پاسبان بن گئے ہیں۔
کیریئر کا راستہ:کل 184 چینی سفارت کار بیرون ممالک میں یا اقوام متحدہ کی سیاسی اور اقتصادی یونینوں میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے 160 مرد اور 24 خواتین ہیں۔تمام سفارت کاروں کے پاس بیچلر ڈگریاں ہیں، دو کے پاس ڈبل بیچلر ڈگریاں ہیں، دو کے پاس غیر چینی یونیورسٹیوں سے بیچلر ڈگریاں ہیں، 42 کے پاس ماسٹرز ڈگریاں ہیں، ایک کے پاس ڈبل ماسٹر ڈگری ہے، سات نے غیر چینی یونیورسٹیوں میں اپنی ماسٹرز ڈگریوں کے لیے تعلیم حاصل کی ہے، اور چھ کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہیں۔سفارت کاروں کے لیے سفیر کی سطح تک پہنچنے کی درمیانی عمر 51 سال ہے، جبکہ چین کے فرانس میں سفیر لو شیے 41 سال کی عمر میں سب سے کم عمر سفیر ہیں۔چین کی وزارت خارجہ بھی نان کیریئر سفارکاروں کو بھرتی کرتی ہے۔ سنہ 2000 میں مرکزی اور مقامی حکومت سے امیدواروں کو تلاش کرنے کے لیے ایک پائلٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔کامیاب امیدواروں میں سے کچھ سینئر سفارت کار بن گئے، جن میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے بین الاقوامی رابطہ ڈیپارٹمنٹ کے موجودہ سربراہ سونگ تاؤ اور شمالی کوریا میں چین کے سفیر لی جن جن شامل ہیں۔صدر شی کے دور میں سفارتکاری کی سروس میں براہ راست داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔ سفیروں کی موجودہ لائن اپ میں سے نو ایسے سفارتکار ہیں جو کسی اور شعبے سے آئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت عہدیداروں کو سفارتکاروں کی فہرست میں شامل کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی سماجی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔مثال کے طور پر، تجارت اور کامرس کے ماہر نونگ رونگ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کی نگرانی کے بنیادی کردار کے ساتھ پاکستان میں سفیر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ایتھوپیا میں چین کے سفیر ڑاؤ ڑیوان صوبہ شانڈونگ میں ویئفانگ ہائی ٹیک ڈویلپمنٹ زون کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ تھے، اور آئرلینڈ میں سفیر ہی ڑیانگ ڈونگ ’ورلڈ افیئرز‘ میگزین کے چیف ایڈیٹر تھے۔
پارٹی سے وفاداری:صدر شی کی دوسری مدتِ اقتدار کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے چینی خارجہ پالیسی میں اپنے کردار کو مضبوط بنایا ہے۔دسمبر 2017 میں شی نے سفارت کاروں اور سفیروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ’سی سی پی کی مرکزی کمیٹی کے اختیارات اور مرکزی قیادت کو برقرار رکھنا چاہیے اور پارٹی کی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘مارچ 2018 کی نیشنل پیپلز کانگریس میں بیجنگ نے خارجہ امور کا مرکزی کمیشن قائم کیا تھا، جس نے سابق سینٹرل لیڈنگ سمال گروپ کی جگہ لی۔ اس اقدام کا مقصد خارجہ پالیسی کو سنبھالنے والے سرکاری اداروں پر سی سی پی کے کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔مغربی ممالک کے برعکس، چین میں حکومتی اور پارٹی عہدوں کے درمیان کوئی واضح تقسیم نہیں ہے۔ ان عہدوں پر حکام کی تقرری ایک کے بعد ایک ہوتی رہتی ہے، اور بعض اوقات تو یہ ایک ساتھ کی جاتی ہے۔اپنی سابقہ تقررریوں میں برطانیہ میں چین کے سفیر زینگ زیگوانگ نے نانجنگ شہر کے پارٹی لیڈرشپ گروپ کے ڈپٹی سیکریٹری اور نانجنگ میونسپل گورنمنٹ کے ڈپٹی میئر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔اس وقت 183 میں سے 44 سفیر سی سی پی کے مختلف عہدوں پر رہ چکے ہیں، 48 سرکاری ملازم تھے، اور 21 کے پاس سرکاری اور سی سی پی دونوں کے عہدے تھے۔
خصوصی پوسٹنگز:بیجنگ چاہتا ہے کہ اس کے بیرون ملک مقیم سفارت کار علاقائی اور دیگر امور میں مہارت رکھتے ہوں، انھیں ان ممالک میں تعینات کیا جائے جن کی زبان ایک جیسی ہو یا انھیں کسی مخصوص علاقائی بلاک میں تعینات کیا جائے۔موجودہ 184 سفیروں میں سے 82 نے اپنے پورے کیریئر میں کسی نہ کسی شعبے میں مہارت حاصل کی ہے۔ ان میں سے 12 کی پوسٹنگ ایشیائی ممالک میں، سات کی دولت مشترکہ کے ممالک میں، پانچ کی انگریزی بولنے والے ممالک میں، 15 کی سابق سوویت کی ریاستوں اور سیٹلائٹ ریاستوں میں، 20 کی فرانسیسی بولنے والے ممالک میں، نو کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں، دو کی پرتگالی بولنے والے ممالک میں، 10 ہسپانوی بولنے والے ممالک میں اورتین3 کی سب صحارا افریقہ میں تعیناتیاں ہوئی ہیں۔
بڑے ممالک پر توجہ:چین امریکہ، برطانیہ، روس اور جاپان جیسے بڑے ممالک میں اپنے سفارت خانوں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ان ممالک میں موجود چینی سفیر اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے ملک میں نائب وزیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور روس میں سابق سفیر بھی ملک میں نائب وزیر رہے تھے۔اکثر چینی سفیروں کی مدت ملازمت تقریباً تین سال ہوتی تھی۔ تاہم، کچھ اہم ممالک میں چینی سفیر زیادہ دیر تک بھی اپنے عہدے پر تعینات رہے ہیں۔ برطانیہ میں چین کے سابق سفیر لیو ڑیاؤمنگ تقریباً 11 سال بطور سفیر تعینات رہے، روس میں سفیر لی ہوئی نے 10 سال، جاپان میں چین کے سفیر چینگ یونگھوا نے 9 سال اور امریکہ میں چین کے سفیر چوئی تناکائی نے 8 سال خدمات سر انجام دیں۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان طویل مدتی پوسٹنگز کا مقصد سفیروں کو کثیر جہتی تعلقات کے لیے بہتر تفہیم فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ بڑے ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کو سنبھالنے کے لیے اس کے پاس قابل سفارکاروں کی کمی ہے۔