ترکی میں مہنگائی میں اضافے کے باوجود شرح سود میں کمی

انقرہ، اگست ۔مہنگائی کی شرح 24سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باوجود ترکی کے مرکزی بینک نے شرح سود کو کم کر کے مارکیٹوں کو حیران کردیا کیونکہ اس سے مہنگائی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ڈان میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے کہا کہ معاشی گراوٹ کو ایک ناگزیر خطرے کے عنصر کے طور پر بڑھایا جارہا ہے کیونکہ اس نے اپنی ایک ہفتے کی ریپو نیلامی کی شرح کو 14 فیصد سے کم کر کے 13 فیصد کر دیا۔بلیو بے ایسٹ مینجمنٹ کے ماہر معاشیات ٹموتھی ایش نے ای میل کیے گئے تبصرے میں کہا کہ حیرت انگیز طور پر مہنگائی کی شرح 80 فیصد مزید بڑھ رہی ہےکیپٹل اکنامکس کے جیسن ٹووی نے کہا کہ ترکی کے مرکزی بینک نے معاشی گراوٹ کے خلاف اپنی لڑائی تیز کر دی ہے، اس اقدام سے کرنسی کے ایک اور بحران کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔اعلان کے چند لمحوں میں ہی ترک کرنسی لیرا، ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا ایک فیصد کھو بیٹھا ہے، ترکی کی مانیٹری پالیسی کا فیصلہ دوسرے ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے فیصلے سے یکسر الٹ ہے کیونکہ روس یوکرین جنگ نے ملک میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور مرکزی بینکوں کو قرض لینے کی لاگت بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اس غیر روایتی عقیدے کو مانتے ہیں کہ بلند شرح سود مہنگائی کنٹرول کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بنتی ہے، انہوں نے مرکزی بینک کے 2019 سے موجود تین گورنرز کو برطرف کر دیا تھا جن کی غلطی صرف اتنی تھی کہ اردوان کی سوچ کے برعکس انہوں نے روایتی اقتصادی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کی تھی۔ترکیہ کی شرح سود اب منفی 66.6فیصد ہے، اس سے پہلے کہ لیرا اپنی قدر مزید کھو دے، یہ کاروباروں اور عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرے گا۔کچھ ماہرین اقتصادیات نے شرح سود میں کمی کے فیصلے کو طیب اردوان کی ٹیم کی جانب سے ‘لیراکی قدر میں کمی کی ایک مشترکہ کوشش سے تعبیر کیا تاکہ سستی برآمدات کے ذریعے ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔اردوان نے برآمدات سے چلنے والی اس نمو کو ایک ‘نئے معاشی ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے جسے ایک طاقتور اور خودمختار ترکی کو اپنانا چاہیے تاکہ عالمی دنیا پر انحصار کم کیا جا سکے۔صرف پچھلے سال سے اب تک لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔

 

Related Articles