سعودی عرب اور ترکی کا باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا عزم
انقرہ/ریاض،اپریل۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس پی اے نے ترک رہنما اور ولی عہد محمد بن سلمان کے گلے ملنے کی تصاویر شائع کی ہے۔ گو کہ رجب طیب ایردوآن کا یہ دورہ سعودی عرب کے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر ہو رہا ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے حوالے سے تمام بات چیت ولی عہد محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق محمد بن سلمان نے ہی امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے منصوبے کی منظوری دی تھی تاہم ریاض اس الزام سے انکار کرتا ہے۔ایس پی اے کے مطابق ایردوآن اور محمد بن سلمان نے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات کا جائزہ لیا اور تمام شعبوں کو فرو غ دینے کے طریقہ کار پر بات چیت کی۔ترک صدر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ انہوں نے سعودی رہنما سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور یہ کہ ترکی کی سلامتی اور استحکام خلیج کی سلامتی اور استحکام کا حصہ ہے۔اس سے قبل ایردوآن نے ایک بیان میں کہا تھا، "میرا دورہ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے ہماری مشترکہ خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان سیاست، عسکری تعاون، معیشت اور ثقافت سمیت تمام شعبوں میں بہتر تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرنے کی کوششیں کریں گے۔”ان کا مزید کہنا تھا، "سعودی عرب تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ترکی کے لیے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ سعودی عرب میں ہمارے کنٹریکٹرز نے جو پروجیکٹ شروع کیے ہیں ان کی کل مالیت 24 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔” ایس پی اے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے تازہ ترین علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تعاون بڑھانے کے لیے بھرپور کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ سن 2017کے بعد ترک رہنما کے سعودی عرب کے اپنے پہلے دورے میں جدہ پہنچنے پر مکہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل نے ان کا استقبال کیا۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس بات پر زور دیا کہ انقرہ ریاض کے ساتھ ہر قسم کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض کے ساتھ صحت، توانائی، فوڈ سکیورٹی، زرعی ٹیکنالوجی، دفاعی صنعت اور مالیات کے شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہو گا۔ایردوآن نے مزید کہا، ”ماضی کے مقابلے میں بہتر سطح پر تعلقات کو بڑھانے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے شعبوں میں ہمیں دونوں ممالک میں امکانات نظر آتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، ”ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر اقدامات اور تعاون کو اہمیت دیتے ہیں۔”خیال رہے کہ سعودی عرب کے علاوہ ایردوآن خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں داخلی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی افراط زر کی وجہ سے معیشت کو مشکلات درپیش ہیں۔سن 2018 میں ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ تاہم بدلتے ہوئے حالات میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں ترکی نے خاشقجی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث 26 سعودی شہریوں کے خلاف کیس واپس لے لیے۔ ترکی کے اس اقدام کو ایردوآن کے سعودی عرب کے دورے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں مشرقی وسطیٰ امور کے مشیر دینا اسفندیاری کا کہنا ہے کہ ایردوآن کے لیے ملک کے اقتصادی مفادات زیادہ اہم ہیں۔ انہوں نے کہا، "ایسا لگتا ہے گویا ترکی نے خاشقجی کو بھلا دیا اور مجھے پورا یقین ہے کہ سعودی اس کی ستائش کریں گے۔”