کیاامریکہ سپر پاور نہیں رہا؟
تحریر: سردار عبدالرحمٰن خان۔۔۔بریڈ فورڈ
برطانوی حکومت کے وزیر دفاع نے امریکہ کا افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا‘‘ یہ اس حکومت اور ملک کا وزیر کہہ رہا ہے جو ہمیشہ سے دعوے کرتے آئے ہیں کہ ان کا امریکہ سے ’’خصوصی‘‘ رشتہ ہے۔ شاید یہ بات وزیر حکومت برطانیہ نے مایوسی کے عالم میں کہی ہو لیکن اگر نظر غائر سے تاریخی تسلسل سے امریکہ کے اپنے ملک سے ہزاروں میل دور تمام تجربات اور جنگی مہمات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ امریکہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوا ہے اور اپنے ملکی حدود سے باہر جیتنے بھی ایڈونچرز کیے ہیں اس میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور تزویراتی ،فوجی اور اخلاقی طور پر شرمناک شکست سے دوچار ہونا پرا۔ امریکہ نے اپنی بے پناہ عسکری طاقت اور جنگی سازو سامان کی فراوانی پر بھروسہ کراتا ہے لیکن اس کے مدمقابل اپنے دفاع میں موت ایمانی سے اپنی بقاءکی خاطر بے تیغ بھی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہی فرق ہے دونوں میں۔امریکہ اپنے دفع کی جنگ، اپنے ملک کی سرحدوں پر نہیں لڑتا، وہ اپنے نظریات کی جنگ اپنے ملک سے دور ہدود و قیود کی پروا نہ کرتے ہوئے لڑتا ہے۔ جی حضوری اتحادیوں کی ترغیب و تحریص دے کر اپنے ساتھ ملاتا ہے جو ملک امریکہ کی چاپلوسی اور تابعداری نہیں کرتا وہ امریکہ کے تعصب اور غضب کا ٹارگٹ بن جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جو ان کے ساتھ نہیں وہ ان کا مخالف سمجھا جائے گا۔ کمزور ممالک کے لیے اپنے ملک کی بہبودی اور بہتری کے لیے راستہ بند ہوجاتا ہے، ہر ملک کا اپنا ماحول ہے، اپنا پس منظر ہے، اپنا لباس ہے، اپنی روایات ہیں، اپنا مذہب ہے اور کئی طرح کے مختلف حالات ہیں۔ اس سے وہ امریکہ کی تقلید نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ امریکہ کے مخالف ہیں۔ویتنام کو لیجیے، امریکہ وہاں ہزاروں میل دور کیوں گیا، کیا ویتنام اور امریکہ میں زمینی سرحدوں کا تنازع تھا، کیا ویتنام نے امریکہ میں کوئی دہشت گرد بھیج کر بم گرائے تھے، کیا ویتنام میں امریکہ کے خلاف کوئی دہشت گردی کی تربیت گاہ تھی؟ کیا ویت نام کوئی تباہ کن نیو کلیئر بم بنا رہا تھا؟ کیا امریکہ کو ویتنام سے کوئی مستقبل قریب جنگ کا خطرہ تھا، جو اب نفی میں ہے، کیا ویتنام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ روس یا چین سے دوستانہ تعلقات رکھے اور اشتراکی نظام حکومت اختیار کرے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے جس شدت سے ایک کمزور، پسماندہ، غریب، کیتھی باڑی اور مزدوری کرکے روزی کمانے والے اور ننگے پائوں چلنے والے ویت نامیوں پر حملہ کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ آسان اور زمین سے مارڈرن ہتھیاروں سے قیامت خیز آتش بازی کی۔ گائوں کے گائوں مسمار کردیے۔ شہر اور بستیاں اجاڑ دیے۔ ویت نام کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک پاپٹ حکومت بٹھا دی۔ یہ ڈیوڈ اور گولائتھ کا مارکہ تھا۔ گویا ہتھوڑے سے اخروٹ توڑا جارہا تھا لیکن دوسری طرف جرآت، بہادری، ایثار، قربانی، حب الوطنی اور وطن کے دفع کا جذبہ تھا، ویت نامیوں نے اور ویت کانگ نے درختوں کے پتے کھائے، ننگے پائوں چلے، جنگلوں اور غاروں میں پناہ لی، میدانوں اور وادیوں میں سوراخ بناکر پناہ لی اور قوت ارادی سے سپر پاور کا مقابلہ کیا، بے پناہ جانوں کی قربانی دے کر فتح حاصل کی،انجام کار سپر پاور دم دباکر اپنا سامان بھی سمندر برد کرکے بھاگی۔ فاتح ’’ہوچی من‘‘ ٹھہرا جو ایک کمزور پیسٹریاں بنانے والا تھا۔ امریکہ ویت نام کو بے یارو مددگار پر چھوڑ کر، ملک کے دو ٹکڑے کرکے،طوائفلملوکی پھیلاکر لاکھوں کو یتیم کرکے بے بسی اور بے کسی میں چھوڑ کر بھاگا۔ جنسی جرائم کے نتیجے میں ایک پوری جنریشن ویت نامی عورتوں سے ’’ریپ‘‘ کے نتیجے میں ناجائز بچوں کی چھوڑی۔ کلچرل مسائل پیدا کیے جو آج تک حل نہ ہوسکے لیکن امریکہ ان تمام جرائم کا کہیں بھی جوابدہ نہیں ہے۔ امریکہ نے لیبیا پر اچانک ہوائی حملہ کرکے بلاجواز شہریوں کو ہلاک کردیا۔ پھر بھی بین الاقوامی طور پر جواب دے نہیں ہے۔ اسی طرح ہزاروں میل دور قذافی کو لیبیا میں سبق سکھانے کے لیے اسٹیلتھ بمبار جہازوں کے ذریعے بموں کی آگ برساکر بے گناہ شہریوں اور کرنل قذافی کی منہ بولی بیٹی کو شہید کردیا لیکن پھر بھی بین الاقوامی برادری نے نوٹس نہ لیا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے کانوں تک آواز تک نہ پہنچی۔ اگر ایک چھوٹا پسماندہ ملک اپنے مفادات کے دفع میں لڑتا ہے تو اس کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا۔ اگر امریکہ بین الاقوامی فضائی، زمینی اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے قتل و غارت کرتا ہے تو اس کو امن کے لیے کاوش سمجھا جاتا ہے۔ صدام حسین کو دہشت گرد قرار دیا اور پوری طاقت سے حملہ کردیا۔ بین الاقوامی روایات کی پروا نہ کی۔ جنگ کے لیے اپنے ملک کے عوام کو جھوٹے قصے، کہانیاں اور ثبوتوں سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ صدام حسین کو سبق سکھانے کی غرض سے صدام کو فوجیوں کو عقوبت خانوں میں بند کرکے غیر امتنائی طور طریقوں سے ٹارچر کیا۔ قیدیوں کو مار پیٹ کر ایک دوسرے سے بدفعلی پر مجبور کیا۔ امریکی فوجی عورتوں کے سامنے ننگا کرکے تمسخر اڑایا گیا۔ گردن میں رسیاں باندھ کر کتوں کی شکل میں پریڈ کرائی گئی۔ انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں نے انسانی حقوق کا جنازہ نکال دیا۔ عراق کے مقدس مقامات کو مسمار کردیا۔ لاکھوں بے گھر ہوئے۔ لاکھوں گلیوں، کوچوں، سڑکوں پر مارے گئے۔ صدام حسین کا قتل امریکہ کا پہلا ہدف تھا لیکن انہوں نے اس حد تک بے رحمی کی کہ اس کے بچوں کی جان بھی نہ بخشی۔ امریکہ نے صدام حسین کے نو سالہ پوتے کو بھی سفاکی سے ایک گھر میں روک کر قتل کردیا۔ کوئی انسانی حقوق کا علمبردار بولنے کی جرات نہ کرسکا۔ امریکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم میں برتری اور باون (اسٹیٹس) ریاستوں پر مشتمل ہونے کی حیثیت سے سپر پاور ہوگا لیکن وہ انسانی حقوق، اخلاقیات اور بین ال اقوامی قوانین اور روایات کی پاسداری میں دیوالیہ پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جہاں چاہتا دوسرے ملک کے حریف کو نشانہ بناتا ہے۔ ماضی قریب میں ایران کے ایک جنرل کو اسی طرح نشانہ بنایا گیا۔افغانستان جب روس نے مداخلت کی تو اس کی مخالفت کی۔ جب روس شکست کھاکر نکلا تو امریکہ نے خود وہی جرم کیا جس کا روس پر الزام لگایا تھا۔ افغانستان میں امریکہ ایک بہانہ تراش کر تین در جس اتحادیوں کے ساتھ دبدبے اور خوفناک طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے داخل ہوا۔ پھر جس دلدل میں پھنسا اس کی داستان آج لکھی جارہی ہے۔ امریکہ نے بیس سال تک افغانستان کو گھنائونی جنگ کا نشانہ بنایا۔ انتہائی مارڈرن خودکار ہتھیاروں سے زمین اور فضا سے آگ برسائی، ہزاروں حملے کیے۔ ٹارچل سیل بنائے۔ بلگرام جیل کو وحشیانہ بربریت کا سینٹر بنایا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہر طرح کی برتری اور سہولت کے باوجود ایک ناخواندہ، پسماندہ، غیر منظم اور منقسم مگر لڑاکا قوم سے شکست فاش کھانا پڑی۔ شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر ڈھیلی ڈھالی پگڑی کا بوجھ، ناتراشی اور بکھری ہوئی داڑھی، پائوں میں میلے ٹوٹے ہوئے چپل، کندھوں پر چار خانے کی چادر، آنکھوں میں چمک، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر دہنت کے مل جلے جذبات کا مجسمہ طالبان امریکہ کے فوجیوں کو اب بھی خواب میں دکھائی دیتا ہوگا۔امریکہ ٹیکنالوجی کی جنگ لڑتا ہے۔ دنیا کی حکمرانی کے لیے جنگ لڑتا ہے۔ اپنے آپ کو سپر پاور ہونے کی جنگ لڑتا ہے۔ چھوٹی قوموں کو مطیع اور فرماں بردار کرنے کے لیے لڑتا ہے۔ مگر قومیں اپنی آزادی کے جذبے سے لڑتی ہیں، ان میں جب وطن موجزی ہوتی ہے۔ اپنا مذہب اپنی روایات، اپنی رسومات کا دفع کرتے ہیں، اس لیے ان کو کوئی خوف نہیں ہوتا۔ یہ قانون قدرت ہے، ہر کمال کو زوال ہے۔ کتنے ممالک سپر پاور بنے اور تباہ ہوئے۔ فارسی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ’’جب چیتا بلی کو روک کر عاجز کردیتا ہے تو وہ بھی اپنی پوری طاقت سے اپنا دفع کرتی ہے۔ وہ ناخن نکال چیتے پر پنجہ زن ہوجاتی اور پھر چیتے کی آنکھیں لیتی ہے۔‘‘ افغانستان کی ایک طویل تاریخ، یہ لوگ شجاعت، بہادری، جرات اور استقامت میں ثانی نہیں رکھتے۔ روس، برطانیہ اور امریکہ ان کو آزما چکے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر دفاع کا یہ کہنا کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا۔ طالبان نے امریکہ کو کبھی سپر پاور مانا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کو سپر پاور مانتے ہیں، جس نے ان کو فتح دی ہے۔ امریکہ کو اس تجربے سے سیکھنا چاہیے کہ اپنی حدود سے دور ایڈونچرز کرنا چھوڑ دے اور مسلم دشمنی اور کمزور ممالک میں مداخلت بند کردے۔ افغانستان کو جس حالت میں چھوڑا بھاگے ہیں اس کا ہرجانہ دے اور ان کے امریکہ اور دوسرے ممالک میں جمع شدہ روپے کو ریلیز کریں۔