مظاہروں کے بعد نیتن یاہو کا عدالتی اصلاحات پر موقف نرم
تل ابیب،مارچ۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کے روز اپنی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی طرف سے عدالتی اصلاحات کے معاملے پرنرمی اسرائیل میں کئی ماہ سے جاری وسیع پیمانے پر احتجاج اور مغربی ممالک کی طرف سے تل ابیب پر دباؤ کی کا نتیجہ ہے۔ایسا لگتا تھا کہ نیتن یاہو جنہیں پارلیمانی اکثریت حاصل ہے 2 اپریل سے شروع ہونے والی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی تعطیل سے قبل اصلاحاتی پیکج منظور کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن انہوں نے اور قومی مذہبی اتحاد میں ان کے اتحادیوں نے اجلاس کے بیشتر پہلوؤں کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم 30 اپریل سیکنیسیٹ کے دوبارہ اجلاس شروع ہونے کے بعد عدالتی اصلاحات کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ترمیم شدہ قانون منظوری کے بعد اگلے ہفتوں میں ججوں کے انتخاب کے لیے اسرائیل میں استعمال ہونے والے طریقہ کار کو تبدیل کر دے گی، جس سے ان اصلاحات کے حوالے سے زیادہ تر تنازعات پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ مخالفین نیتن یاہو پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی آزادی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسرائیلی حکومتی اتحاد کی طرف سے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں 4 جنوری کو پیش کیے گئے اصل بل میں موجود اس سے کہیں زیادہ قدامت پسند زبان استعمال کی گئی ہے، لیکن اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ سلیکشن کمیٹی میں ججوں کی طاقت پر غور کرتا رہے گا اور اسے خودکار ویٹو کے طور پر استعمال کرے گا۔بیان میں اتوار کو کنیسٹ کے جائزہ اجلاس میں بل میں ترمیم کا بھی حوالہ دیا گیا، کیونکہ سلیکشن کمیٹی کو 9 سے بڑھا کر 11 ممبران کیا جائے گا جیسا کہ اصل میں تجویز کیا گیا تھا۔مسودہ قانون میں یہ بات شامل ہے کہ کمیٹی کی تشکیل میں تین وزراء، حکمران اتحادی جماعتوں کے دو ارکان اور حکومت کی طرف سے منتخب کردہ دو عوامی شخصیات شامل ہوں گی جس سے حکومت کو ووٹوں کی تعداد میں چار کے مقابلے میں سات کی اکثریت حاصل ہوگی۔