آبدوزں کے معاہدہ پر اختلاف، فرانس نے بطور احتجاج امریکہ اور آسٹریلیا سے سفیر واپس بلا لیے
پیرس،ستمبر۔فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان جوہری آبدوزوں کے معاہدے کے بعد بطور احتجاج دونوں ممالک سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔فرانس کے وزیرِ خارجہ جین ایو لے ڈریئن نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ ان کے ملک کا یہ اقدام معاملے کی سنگینی کی وجہ سے جائز ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں کا احکامات پر حلیف اور شراکت دار ممالک کے ناقابل قبول رویے کی بنیاد پر اٹھایا۔فرانس کی وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ فرانس نے امریکہ سے اپنا سفیر واپس بلایا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 1778 میں قائم ہوئے تھے۔وائٹ ہاؤس نے فرانس کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ فرانس کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے آئندہ ایام میں رابطے جاری رکھے گا۔امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ فرانس امریکہ کا اہم شراکت دار اور سب سے دیرینہ حلیف ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے۔واضح رہے کہ آسٹریلیا نے امریکہ اور برطانیہ سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت یہ دونوں ممالک آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں بنانے میں مدد کریں گے۔ اس معاہدے کی وجہ سے آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ 43 ارب ڈالر کا وہ معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت اسے درجن بھر دنیا کی سب سے بڑی آبدوزیں فراہم کی جانی تھیں۔اس معاہدے کے بعد فرانس کے وزیرِ دفاع ڑا ڑیو یود گیان نے ‘فرانس انفو ریڈیو نیٹ ورک’ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکہ پر تنقید کی تھی۔فرانس کے وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ یہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آسٹریلیا کے ساتھ قابلِ اعتماد تعلقات قائم کیے۔ اس معاہدے کے بعد آسٹریلیا نے بھروسہ توڑ دیا ہے۔فرانس کے وزیرِ دفاع نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید کی اور انہیں منفی انداز میں اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح قرار دیا۔ان کے بقول یہ سنگ دلانا، یک طرفہ اور غیر متوقع فیصلہ ہمیں بہت کچھ یاد دلاتا ہے جو ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر نالاں اور برہم ہیں۔ ایسا اتحادیوں کے درمیان نہیں ہوتا۔صدر جو بائیڈن نے امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان معاہدے کا اعلان بدھ کو کیا تھا۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں کی جانب سے اس معاملے پر تبصرہ سامنے نہیں آیا۔