دمشق:حماس رہ نماؤں کی صدربشارالاسد سے ملاقات،تعلقات کے نئے دورکا آغاز
دمش/غزہ،اکتوبر۔شام کے صدر بشار الاسد نے بدھ کے روز حماس کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ملاقات ایک دہائی تک دمشق سے دور رہنے کے بعد’’صفحہ پلٹنے‘‘ میں مددگارہو سکتی ہے۔حماس کے رہ نماؤں نے 2011 کے اوائل میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف سڑکوں پرآغاز ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک کی کھلے عام حمایت کی تھی اور 2012 میں دمشق میں اپنا صدردفتر خالی کردیاتھا۔اس اقدام نے ان کے مشترکہ اتحادی ایران کو ناراض کر دیا تھا۔اب بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کودوبارہ معمول پر لانے سے حماس کی اسرائیل کے خلاف ’’مزاحمت کے محور‘‘میں شمولیت کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔اس میں ایران اورلبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ شامل ہیں۔وہ بشارالاسد کے فطری اتحادی ہیں کیونکہ وہ خود اہل تشیع کی علوی شاخ سے رکھتے ہیں۔حماس کے سیاسی بیوروکے رکن خلیل الحیا کے مطابق ایک چھوٹے وفد نے دمشق میں بشارالاسد سے ملاقات کی ہے تاکہ ’’ماضی کے تمام صفحات کو پلٹاجاسکے‘‘۔حیاہی حماس کے اس وفد کی قیادت کررہے تھے۔انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ’’ہم اس تاریخی ملاقات کو شام اورفلسطین کے مشترکہ عمل کا ایک نیاآغاز سمجھتے ہیں۔ہم نے صدر کے ساتھ ماضی سے آگے بڑھنے پراتفاق کیا ہے‘‘۔انھوں نے کہاکہ متعددعوامل نے اب مفاہمت اور سلسلہ جنبانی دوبارہ شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ان میں اسرائیل کے دوسرے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا قیام بھی ایک اہم پہلو ہے۔اس صورت حال میں فلسطینی نصب العین کوعرب حمایت کی اشد ضرورت ہے۔حماس نے پہلے ہی ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرلیے ہیں۔جماعت کے عہدے داروں نے غزہ میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کے ذخیرے میں ایران کی شراکت کی تعریف کی ہے۔حماس اور دوسری تنظیمیں ان ہی راکٹوں کو اسرائیل سے لڑائی میں استعمال کررہی ہیں اور انھیں جنوبی اسرائیل کی جانب بالخصوص داغ رہی ہیں۔حماس نے شام کے ساتھ مفاہمت میں عجلت کے بجائے سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔اسے خدشہ لاحق تھا کہ اگروہ بشارالاسد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں تیزی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اس کے مالی مددگار نالاں ہوسکتے ہیں کیونکہ بشارالاسد کی حکومت کے کریک ڈاؤن کا زیادہ تر شکار سنی تھے۔فلسطین کے سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ صواف کا کہنا ہے کہ حماس کے شام کی جانب مصالحتی اقدام کا مقصد نئی راہیں کھولنا ہے۔’’میرے خیال میں حماس کے زیادہ ترعلاقے تنگ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ان میں ترکیہ بھی شامل ہے،اسی لیے تحریک کسی دوسرے میدان کی تلاش میں ہے جہاں سے وہ اپنا کام جاری رکھ سکے‘‘۔ان کا کہنا تھا۔