’شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا غیر قانونی تجربہ کیا: جنوبی کوریا کا دعویٰ
سیول،،مارچ۔جنوبی کوریا کا دعویٰ ہے کہ شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا ایک غیر قانونی تجربہ کیا ہے۔ سنہ 2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شمالی کوریا نے آئی سی بی ایم کا تجربہ کیا ہو۔اس میزائل تجربے میں آئی سی بی ایم جاپان کے جنوب میں سمندر میں جا گرا اور اس کی پرواز تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی اور میزائل چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ بلندی تک پہنچا۔جاپانی حکام کا اندازہ ہے کہ اس میزائل کی رینج 1100 کلومیٹر تھی، جس کا مطلب ہے کہ یہ امریکی حدود میں داخل ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔شمالی کوریا نے حالیہ ہفتوں میں کافی زیادہ تجربے کیے ہیں اور امریکہ اور جنوبی کوریا کے مطابق یہ آئی سی بی ایم کے ٹرائلز تھے مگر شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ وہ سیٹلائٹ لانچز تھے۔سنہ 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کے بعد پیونگ یانگ نے دور تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور جوہری تجربوں کو معطل کر دیا تھا لیکن سنہ 2020 میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جان ان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب اپنے اس وعدے کے پابند نہیں۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے شمالی کوریا پر بیلسٹک اور جوہری ہتھیاروں کے تجربوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور گذشتہ بار ایسے تجربے کرنے پر شمالی کوریا کو سخت پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔سنہ 2017 میں شمالی کوریا نے ’ہاسانگ 12‘ کے نام سے آئی سی بی ایم کا تجربہ کیا تھا، جو 4500 کلومیٹر تک پہنچا تھا۔شمالی کوریا کے ’ہاسانگ 14‘ میں آٹھ ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک صرف امریکہ، روس اور چین کے پاس زمین پر مار کرنے والے اس رینج کے میزائل ہیں۔گذشتہ 40 برس میں شمالی کوریا نے تقریبا ڈیڑھ سو میزائلوں کے تجربات کیے ہیں جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اس ملک پر پابندیاں عائد کی ہیں لیکن شمالی کوریا آخر ایسا کیوں کرتا ہے؟شمالی کوریا ایک غریب ملک ہے اور ان میزائلوں کے تجربے پر بے انتہا سرمایہ خرچ ہوتا ہے تو پھر آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟اس کی پہلی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنی اہلیت دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس تجربے کے لیے نئے ہتھیار دستیاب ہیں۔ملک کے نئے سربراہ کم جونگ ان کے دور میں شمالی کوریا کے سائنسدانوں نے درجنوں ہتھیار تیار کیے ہیں۔ یہ میزائل تیزی سے اور دور تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ زیادہ طاقتور ہیں۔پیونگ یانگ ان ہتھیاروں کو خزانے میں رکھی تلواروں کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ان کے ملک پر حملے کے صورت میں اسے اپنی حفاظت کے لیے ان کی ضرورت ہے۔دوسری وجہ پڑوسیوں سے ہم قدم ہونا بتائی جاتی ہے۔ اگر چہ پڑوسی حریف ریاست جنوبی کوریا کے پاس جوہری ہتھیار نہیں لیکن اس کے حلیف امریکہ کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور جنوبی کوریا کو امریکہ کی جانب سے جو تحفظ فراہم ہے اسے ’جوہری چھتری‘ کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں 28 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور شمالی کوریا ہمیشہ ان کی مشترکہ فوجی مشقیں دیکھتا رہتا ہے۔شمالی کوریا کی حکومت اسے جنگ کی تیاری قرار دیتی ہے اور اس کے جواب میں ہمیشہ میزائل کا تجربہ کرتی رہتی ہے۔تیسری وجہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ ملک کے سربراہ نئے ہتھیاروں کا تجربہ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اکٹھا کیا جائے اور اْن میں جوش پیدا کیا جائے اور ہاں، نامہ نگار ایسے میں واشنگٹن کی جانب دیکھتے ہیں اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ میزائل کے تجربے کا کس طرح جواب دے گا۔ کسی نئے صدر کے آمد کے بعد بھی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔شمالی کوریا کا سرکاری میڈیا ان تجربات کی خبریں نشر کرتا رہتا ہے جو کہ زیادہ تر ملکی ناظرین کے لیے ہوتی ہیں۔ بطور خاص مشکل حالات میں ایسا کیا جاتا ہے اور اس وقت شمالی کوریا کی معیشت خستہ حالی کا شکار ہے کیونکہ کووڈ-19 کی روک تھام کے اقدام کے طور پر شمالی کوریا نے اپنی سرحدیں بند کر دیں ہیں اور اس کے سب سے بڑے حلیف چین سے اس کی تجارت میں تیزی سے گراوٹ آئی، یہاں تک کہ کم جونگ ان نے حال میں ایک فوجی پریڈ میں آشکبار آنکھوں سے اس کا اعتراف بھی کیا۔بعض اوقات حکومت میزائل کا تجربہ اس لیے بھی کرتی ہے تاکہ وہ لوگوں کو یہ دکھا سکے کہ ان کے پاس کچھ ہے جس پر وہ فخر کر سکتے ہیں، اگرچہ وہ بھوکے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ مصیبت کے دنوں میں دشمن کے خلاف ایک ساتھ اور متحدہ ہونے کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔سنجیدگی سے لیں۔۔۔چوتھی اور آخری وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا چاہتا ہے کہ دنیا اسے سنجیدگی سے لے۔ شمالی کوریا کے انتظامیہ چاہتی ہے کہ لوگ، امریکہ اور دنیا اسے سنجیدگی سے لے۔اس کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’امریکہ جنگ چھیڑنے کے لیے جتنا چاہے جوہری ہتھیار لہرائے لیکن اب ہمارے پاس بھی مضبوط تدارک ہے اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کا طویل مدتی مقصد ایک معمول کی جوہری طاقت بننا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا یہ تسلیم کر لے کہ وہ جوہری صلاحیت کا حامل ملک ہے۔پیونگ یانگ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دہائیوں سے جاری پابندیوں کو برداشت کر سکتا ہے اور حکومت کو اپنی صلاحیت کو بہتر کرنے سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔س کے برعکس شمالی کوریا اب بھی اپنے محدود وسائل کو اپنے جوہری عزائم کے لیے استعمال کر رہا ہے اور یہ سب اپنے ہی لوگوں کی قیمت پر کر رہا ہے۔