غیر قانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں یورپ میں پر تعیش زندگی ان کی منتظر ہے
فروری۔سوشل میڈیا چمک دمک کی دنیا ہے، جو شخص یہاں لوگوں کو مرعوب کر گیا وہ سوشل میڈیا اسٹار یا انفلوئنسر بن جاتا ہے۔ان انفلوئنسرز کی تصویری دنیا اس قدر سحر انگیز اور پر اثر ہوتی ہے کہ یہ جو پہنیں مداح وہ خریدنا چاہتے ہیں، جس رنگ کی لپ اسٹک کا انتخاب یہ کریں وہی ان کے فالوورز کا انتخاب بھی بن جاتا ہے۔تیونس سیتعلق رکھنے والی18 سالہ سبیع سعیدی اور 21 سالہ شائمہ بن محمود دو ایسی سوشل میڈیا اسٹارز ہیں جن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزانسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر کر کل ملا کر 20 لاکھ فالوورز ہیں۔نومبر میں سبیع السعیدی نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ شوخ گلابی رنگ کی لپ اسٹک لگائے ہوئے گہرے نیلے پانیوں میں ایک کشتی کے کنارے کھڑی ہیں۔بظاہر کسی تفریحی سفر کے دوران کھینچی گئی یہ تصویر دراصل تیونس سے اٹلی تک غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے تارکین وطن سے بھری کشتی پر کھینچی گئی تھی۔ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایسی ہی ایک تصویر میں 21 سالہ انفلوئنسر شائمہ بن محمود اپنے منگیتر کے ساتھ مسکراتی نظر آئیں۔ ایک اور ویڈیو میں ان کے پیچھے کشتی میں موجود دیگر غیر قانونی تارکین وطن بھی نظر آرہے تھے جو بظاہرعربی موسیقی سے محفوظ ہورہے ہیں۔اٹلی کے جزیرے لیمپیڈیوسا پر اترنے کے بعد یہ دونوں نوجوان خواتین آنے والے دنوں میں کبھی ایفل ٹاور کے سامنے اپنی تصاویر پوسٹ کرتی نظر آئیں تو کبھی یورپ میں شاپنگ کرتی۔دونوں انفلوئنسرز کا تیسری دنیا سے یورپ پہنچنا اور فوری طور پر ایک ایسی زندگی کا حصہ بن جانا جو اب تک کروڑوں لوگوں کے صرف تصور میں ہی ہو، اس غیر قانونی اور بہت سے موقعوں پر جان لیوا ثابت ہونے والے سفر کو بظاہر بہت آسانی سے حاصل ہونے والا خواب دکھائی دے رہا ہے۔جیسے یورپ میں عیش و عشرت کی زندگی بازو پھیلائے تارکین وطن کا انتظار کر رہی ہو۔ان دونوں ہی انفلوئنسرز کو ایک غیر قانونی اور پر خطر سفر کو تفریح اور گلیمرائز کرنے پر شدید تنقید کا سامنا رہا. یاد رہے” مسنگ مائیگرینٹ پراجیکٹ” کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال ہی شمالی افریقہ سے یورپ داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دو ہزار سے زائد تارکین وطن کا آج تک کوئی اتا پتہ نہیں۔ 2014 سے لے کر اب تک اس سفر میں مر جانے یا لاپتا ہو جانے والوں کی تعداد 23 ہزار بتائی جاتی ہے۔یورپ جانے کے خواہش مندوں کو انسانی اسمگلرز عموماً 1500 سے زائد ڈالرز کے عوض کشتیوں میں سوار کر کے یورپ کے ساحلی ممالک کی جانب روانہ کرتے ہیں۔ جن میں کئی کشتیاں راستے میں ہی ڈوب جاتی ہیں اور ان پر سوار مسافر ہلاک ہو جاتے ہیں۔جو تارکین وطن یورپ پہنچ جاتے ہیں تو انہیں بھی مستقل مالی مسائل اور انتہائی سخت زندگی کا سامنا رہتا ہے۔ماہرین کے مطابق اپنی تصاویر اور وڈیوز سے یہ انفلوئنسرز یورپ کی غلط تصویر کشی کر رہی ہیں اور انہیں دیکھ کر ہزاروں اور لوگوں کو ایسا کرنے کی ترغیب ملے گی۔تیونس کا شمار شمالی افریقہ سے یورپ جانے کے لیے مرکزی جگہوں میں ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں مشہور تفریحی ملک تصور کیے جانے والے تیونس میں بڑھتی بے روزگاری اور حکومتی عدم توجہی سے شہری شدید مایوس ہیں اور بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے کے خواہش مند بھی۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیونس کے حکام نے گزشتہ سال یورپ جانے کے خواہش مند 23 ہزار افراد کی غیر قانونی کوششوں کو ناکام بنایا۔جہاں سعیدی اور بن محمود پر کڑی تنقید کی گئی وہیں کچھ لوگوں نے ان کے دفاع میں کہا کہ ان کا یوں یورپ جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غیر قانونی طور پر ملک سے نکلنا مایوس شہریوں کے لیے اپنی زندگی تبدیل کرنے کا واحد راستہ ہے۔خبر وں کے مطابق شائمہ المحمود نے بتایا کہ سفر پر خطر ہے یہ بات وہ بخوبی جانتی تھیں مگر ان کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ ان کے مطابق وہ ہیئر ڈریسر کا ڈپلومہ رکھنے کے باوجود بے روزگار تھیں اور جب ان کے پاس ملازمت تھی تب بھی وہ ماہانہ 120 ڈالرز ہی کما پاتی تھیں جس سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ اور ایک وقت کا کھانا خریدنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔بن محمود نے بتایا کہ گو کہ اپنی تصاویر میں وہ مسکرا رہی ہیں مگر حقیقت میں وہ بہت خوفزدہ تھیں۔ ان کے بقول جس دن انہوں نے سفر کیا اس روز سمندر متلاطم تھا اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب مسافروں کو لگا کہ اب کشتی الٹنے والی ہے مگر پھر انہیں پتہ چلا کہ وہ اطالوی پانیوں میں پہنچ گئے ہیں۔کشتیوں کے ذریعے ہجرت کرنے والے مہاجرین پر تحقیق کرنے والے ماہر نفسیات وائل گارنوئی کہتے ہیں کہ یورپ میں ایک اچھی زندگی کی امید ایک ایسا سراب ہے جسے سوشل میڈیا مزید فروغ دے رہا ہے۔گارنوئی کے مطابق سوشل میڈیا پر تارکین وطن کی تصاویر دیکھ کر سمندر کے اس پار لوگوں کو لگتا ہے کہ وہاں پہنچتے ہی تمام مشکلات آسان ہوجائیں گی، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔سمندر کے اس پار شمس الدین مرزوق تیونس کے ساحلی علاقے زرزیس سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے کارکن ہیں جو یورپ پہنچنے کی تگ و دو میں جان کی بازی ہارجانے والوں کی لاشیں ساحل سے اٹھا کر سپرد خاک کرتے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ ڈوب کر مرجانے والوں کا کم از کم اتنا تو احترام ہو کہ انہیں عزت سے سپرد خاک ہی کر دیا جائے۔ آج مرزوق کی اس کوشش سے ساحل پر ایک عارضی قبرستان آباد ہو چکا ہے جو بہتر زندگی کے تعاقب میں اپنی جان گنوا بیٹھنے والے افراد کی پر خطر کوششوں کی ان کہی داستانیں بیان کر رہا ہے۔