کیا پابندیوں سے روسی ٹینک واپس چلے جائیں گے؟

برلن،اپریل۔اقتصادی پابندیوں کو 1950ء کی دہائی سے مختلف ممالک یا حکومتوں کے خلاف تعزیری اقدامات کے طور پر سنگینی سے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ان کی افادیت پر اب بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔24 فروری کو یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد سے مغرب پانچ ادوار میں روس پر پابندیاں لگا کرانہیں بطور ہتھیار ماسکو کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ماہرین تاہم خبردار کر رہے ہیں کہ یہ پابندیاں جنگ کو فوری طور پر روکنے میں مدد نہیں دے سکتیں۔گلوبل سینکشنس ڈیٹا بیس (GSDB) جو عالمی سطح پر لگنے والی پابندیوں کا تفصیلی ریکارڈ رکھتا ہے، نے اس سلسلے میں حال ہی میں کچھ اعداد و شمار منظر عام پر لائے ہیں۔ ان کے مطابق سن 1950 اور سن 1990 کے درمیان ایک ہزار ایک سو ایک تنازعات میں سالانہ اوسطاً 30 بار پابندیوں کا آپشن استعمال کیا گیا۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں نسلی کْشی کے دور میں۔ لیبیا میں سابق آمر حکمران معمر قذافی اور کیوبا کے میزائل بحران کے دوران پابندیوں کا حربہ استعمال کیا گیا۔روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ کے تناظر میں مغرب کی طرف سے ماسکو حکومت پر لگنے والی پابندیوں میں اثاثے منجمد کرنے، SWIFT میسیجنگ سسٹم سے متعدد بینکوں کے اخراج اور روسی کوئلے پر پابندی سمیت سرمایہ کاری پر پابندیاں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی بندرگاہیں روس کے بحری جہازوں کے لیے بند کر دی گئیں، روس کو ہائی ٹیک سامان سمیت برآمدات پر 10 بلین یورو کی پابندی عائد کی گئی اور امریکی محکمہ خزانہ نے روس کو امریکی بینکوں میں رکھے ہوئے اس کے ڈالر کے ذریعے ادائیگیوں سے روک دیا۔ یعنی غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے روس پر ڈالر کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔خبروں کے مطابق سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشل اسٹیڈی سے منسلک امریکی نڑاد سینیئر مشاورت کار خواں کارلوس زارات نے کہا،” پابندیاں ٹینکوں کا رْخ نہیں پلٹ سکتیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پابندیوں کے مکمل اثرات ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک بھی محسوس نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ خواں کارلوس سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بْش کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں امریکہ کے نائب نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رہ چْکے ہیں۔ادھر پیرس میں مقیم بین الاقوامی مالیاتی تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر اوولیور ڈورگنس کہتے ہیں،” پابندیوں کا حربہ یا یہ ٹول اس وقت عروج پر تھا جب فوجی رد عمل زیادہ مقبول نہیں ہوا کرتا تھا۔‘‘جرمنی کی کونسٹانس یونیورسٹی کے بین الاقوامی معاشیات کے ماہر پروفیسر اردل یالچن کا ماننا ہے کہ پابندیوں کا بطور حربہ استعمال بڑھ رہا ہے کیونکہ گلوبل اکانومی تیزی سے بدل رہی ہے۔ انہوں نے کہا،” پچھلے 20 سالوں میں، دنیا میں مالیاتی انضمام میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر ملک دوسرے ملک کے بینکنگ سسٹم سے منسلک ہے۔اس لیے کسی ایک ملک کو معاشی آلات و اوزار سے سزا دینے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘جنگوں کے خاتمے کے مقاصد کے علاوہ بھی پابندیوں کو انسانی حقوق کی پامالی یا خلاف ورزیوں کو روکنے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔خبروں کے مطابق ایک حالیہ انٹرویو میں، واشنگٹن میں قائم پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے گیری ہوف باؤر، جنہوں نے پابندیوں کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے نے کہا کہ اب تک تنازعات کو روکنے کے لیے پاپندیوں کا جتنی بار استعمال ہوا ہے ان میں سے ایک تہائی سے بھی کم صورتوں میں یہ کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔ خاص طور پر اگر پابندیاں چھوٹے ممالک پر مسلط کی جائیں تو اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں سامنے آئے۔جرمن یونیورسٹی کے بین الاقوامی معاشیات کے ماہر پروفیسر اردل یالچن کہتے ہیں،”پابندیاں معاشی نقصان کے معاملے میں تو بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔‘‘ انہوں نے تاہم اس خبردار کرتے ہوئے کہا ہے،”سیاسی تبدیلی کے ضمن میں معاشی پابندیوں کی شرح 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘ پروفیسر اردل کے بقول پابندیوں کی کامیابی کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ اکثر دیگر اقدامات بھی جڑے ہوتے ہیں جیسے کہ کویت کے کیس میں فوجی کارروائیاں۔ وہ کہتے ہیں، ”بعض اوقات ہمیں پالیسی کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے میں بھی وقت لگتا ہے، 5 سے 10 سال کے درمیان۔ وقت کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے اور کبھی کبھی کوئی کامیابی نہیں ہوتی، جیسے کیوبا کے معاملے میں۔‘‘بین الاقوامی پابندیاں شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکنے میں ناکام رہی ہیں، جب کہ ان کا ایران پر اثر پڑا ہے، کم از کم مذاکرات کی میز پر لانے میں۔ روس پہلے ہی پابندیوں کا معاشی اثر محسوس کر چکا ہے۔ ورلڈ بینک نے اس سال روس کے لیے جی ڈی پی میں 11.2 فیصد کمی کی پیش گوئی کی ہے اور ایس اینڈ پی گلوبل نے روس کو ”سلیکٹیو ڈیفالٹ‘‘ ریٹنگ کے تحت رکھا ہے جب ماسکو نے کہا کہ اس نے تقریباً 650 ملین ڈالر کے قرضے روبل میں ادا کیے ہیں۔ لیکن روسی کرنسی نے سخت سرمایے کے کنٹرول اور توانائی کی برآمدات پر زبردست قدغن کے باوجود روبل کی تاریخی واپسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ زارتے نے کہا کہ پابندیوں کا نظام "مکمل” نہیں ہے۔سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشل اسٹیڈی سے منسلک امریکی نڑاد سینیئر مشاورت کار خواں کارلوس زارات نے کہا،” سینکشنز یا پابندیوں کا سلسلہ ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔ نہیں ہوا ہے۔ تیل اور گیس کی برآمدات پر یورپی پابندیاں ایک بڑا اور اہم اقدام ثات ہوگا جس سے روسی محصولات متاثر ہوں گے۔‘‘خواں کارلوس زارات نے مزید کہا، ” یہ پابندیوں میں ایک جہت کا اضافہ کرے گا جس کے اثرات مرتب ہوں گے، بشمول ایسے روسی بینکوں کے حوالے سے جن پر اب تک پابندی نہیں لگائی گئی ہے یا انہیں deSWIFTED نہیں کیا گیا ہے۔ بالآخر یہ روسی معیشت کو کمزور کردیں گی۔‘‘

 

Related Articles