کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور دہلی کیپٹلس بڑی نیلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں

ممبئی، دسمبر۔کولکتہ نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) کے چیف ایگزیکٹیو وینکی میسور اور دہلی کیپٹلس کے پارتھا جندل کے مطابق، انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی بڑی نیلامی اب اتنی نتیجہ خیز نہیں رہی ہے۔دو بڑی ٹی ٹوئنٹی ٹیموں کے سربراہان کا یہ سخت بیان منگل کے روزآیا۔ موجودہ آٹھ ٹیموں نے آنے والی بڑی نیلامی سے قبل اپنے کچھ کھلاڑیوں کو برقرار رکھا ہے۔ میسور کو لگتا ہے کہ بڑی نیلامی سب کے لیے یکساں نہیں رہی ہے۔ آئی پی ایل کے آغاز کے تین سال بعد 2011 میں پہلی بڑی نیلامی کے موقع پر جندل نے کہا کہ تین سال تک کئی کھلاڑیوں پر وقت اور پیسہ لگانے کے بعد انہیں کھونا "دل دہلا دینے والا” تھا۔منگل کے روز میسور نے کے کے آر کے ریٹین کھلاڑیوں پر بات کرتے ہوئے کرک انفو سے کہا، ’’ لیگ کے لئے ایک اہم موڑ آرہا ہے جہاں آپ کو یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ایک بڑی نیلامی کی ضرورت ہے۔ آنے والے نئے کھلاڑیوں کے لئے ڈرافٹ کیے جاسکتے ہیں یا باہمی رضامندی سے انہیں ٹریڈ (تجارت) کرسکتے ہیں، کھلاڑیوں کو لون پر بھیجا جاسکتا ہے اور ہم طویل عرصہ کے لئے ٹیم بنانے کی اجازت دے سکتا ہے۔ ‘‘دونوں ٹیموں نے زیادہ سے زیادہ چار کھلاڑیوں کو برقرار رکھا لیکن اس کے باوجود انہیں کئی بڑے کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنا پڑا جو گزشتہ چند سیزن میں ٹیم کے اہم کھلاڑی تھے۔ کے کے آر نے شبھمن گل، لوکی فرگیوسن، نتیش رانا اور راہل ترپاٹھی جیسے کئی کھلاڑیوں کا ساتھ چھوڑا جبکہ دہلی نے شکھر دھون، کگیسو ربادا اور روی چندرن اشون کو جانے دیا۔ کیپٹلز کے سابق کپتان شریس ایر نے نیلامی میں جانے کا فیصلہ کیا ہے اور جندل کو لگتا ہے کہ اس صورتحال کو روکا جا سکتا تھا۔ منگل کے روز براڈکاسٹر اسٹار اسپورٹس سے بات کرتے ہوئے جندل نے کہا، "شریس ایر، شیکھر دھون،کگیسو ربادا، اشون کو کھونا دل دہلا دینے والا تھا۔ بات یہ ہے کہ نیلامی کا عمل اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آگے بڑھتے ہوئے آئی پی ایل کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ ٹیم بنائیں، آپ نوجوانوں کو مواقع دیں، آپ انہیں اپنے سیٹ- اپ کے ذریعے انہیں تیار کریں، انہیں مواقع ملتے ہیں وہ آپ کی فرنچائیزی کے لئے کھیلتے ہیں، پھر وہ جاکر کاونٹی یا اپنے اپنے ملک کے لئے کھیلتے ہیں اور پھر تین سال بعد آپ انہیں گنوا دیتے ہیں۔ "آئی پی ایل کی کئی ٹیموں کی اب اپنی اکیڈمی ہے۔ ساتھ ہی ایک اسکاؤٹنگ سسٹم ہے جو نوجوان اور ان کیپڈ باصلاحیت کھلاڑیوں کو اپنے ساتھ جوڑتی ہیں تاکہ انہیں مستقبل میں اپنی ٹیم میں کھیلنے کے لئے تیار کیا جاسکیں۔ میسور نے کہا کہ یہ سب کرنے کے بعد کھلاڑیوں کو نیلامی میں بھیجنے کے بجائے فرنچائزی ریٹین کرواکر اپنے سرمایہ کا فائدہ دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، "لیگ نے 14 سال مکمل کر لیے ہیں اور اس مرحلے پر اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو بڑی نیلامی اپنی افادیت کو ختم کر چکی ہے۔ اور آپ کو اسکاوٹنگ اور اکیڈمی میں سرمایہ کرنے والی فرنچائیزی کو انعام دینا ہوگا۔ ہم نے کے کے آر میں سرمایہ کاری کی ہے اور ہمارے پاس گھریلو اور بین الاقوامی سطح پر اسکاوٹنگ ڈھانچہ ہے۔ کچھ دن پہلے کسی نے مجھے ایک نوٹ بھیجا کہ 2018 کے بعد سے ہمارے چھ ان کیپڈ کھلاڑی ہندوستان کی نمائدنگی کرچکے ہیں ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہم اس سلسلے میں بھی اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ایک وقت تھا جب بڑی نیلامی تمام ٹیموں کو برابری کی سطح پر لایا کرتی تھی۔ تاہم، اس کے باوجود ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر آپ ٹیموں کو کچھ کھلاڑیوں کو واپس لینے کا حق دے رہے ہیں، تو ریٹینشن کے ذریعہ نہیں بلکہ رائٹ ٹو میچ (آر ٹی ایم) کارڈ کے ذریعہ ہونا چاہئے "جب آئی پی ایل 2008 میں شروع ہوا تو اصل منصوبہ یہ تھا کہ تمام کھلاڑی بڑی نیلامی میں واپس جائیں گے۔ تاہم، 2011 کی بڑی نیلامی سے پہلے، جب پونے اور کوچی نامی دو نئی ٹیمیں لیگ میں شامل ہوئیں، تو یہ طے پایا کہ آٹھ پرانی ٹیمیں چار کھلاڑیوں کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔2014 میں دوسری بڑی نیلامی سے پہلے، میسور نےآر ٹی ایم طریقہ کا مشورہ دیا تاکہ ٹیمیں اپنے اہم کھلاڑیوں کو برقرار رکھ سکیں۔ اسے قبول کر لیا گیا اور ٹیموں کو دوآر ٹی ایم کے ساتھ چار کھلاڑیوں کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی۔ 2018 کی میگا نیلامی میں، آٹھ موجودہ ٹیموں کو تین ریٹینشن کے دو آر ٹی ایم کارڈ دئیے گئے تھے۔اس بار آئی پی ایل نے آر ٹی ایل کارڈ کو ہٹا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، دو نئی ٹیمیں – لکھنؤ اور احمد آباد – ریٹین نہیں کئے گئے کھلاڑیوں میں سے تین تین کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کرسکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے بڑے ناموں اور نوجوان ان کیپڈ کھلاڑیوں نے ریٹین نہ ہونے کا متبادل منتخب کیا ہے۔میسور نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ یہ چیلنج اس وقت تک موجود رہے گا جب تک آپ کے پاس نیلامی سے پہلے برقرار رکھنے کا یہ اصول موجود ہے۔ ہماری سفارش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ براہ کرم مارکیٹ کو قیمت مقرر کرنے دیں اور ٹیموں کو کھلاڑیوں اور آرٹی ایم کارڈ کی تعداد منتخب کرنے کی اجازت دیں۔لہذا ہماری مستقل سفارش یہ ہے کہ ہر کسی کو نیلامی میں واپس بھیج دیا جائے اور اگر آپ موجودہ ٹیموں کو چار لوگوں کو چننے کی اجازت دے رہے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو چار رائٹ ٹو میچ کارڈ دیں اور دو نئی ٹیموں کو تین۔آر ٹی ایم کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ حریف ٹیمیں ہمیشہ آپ کے پسندیدہ کھلاڑی کی قیمت بڑھا سکتی ہے جس سے آپ کے پرس میں کٹوتی ہو۔ ریٹین کرنے کا ضابطہ اسے روکنے کے لئے ہی بنایا گیا تھا”- لیکن میسور کو یقین نہیں ہے۔ آپ کسی پر الزام نہیں لگا سکتے کیونکہ ہمیشہ یہ بحث ہوتی ہے کہ نیلامی سے پہلے کیوں برقرار رکھا جاتا ہے؟ پھر کوئی کہتا ہے، اوہ، آپ جانتے ہیں، اگر آپ صرف نیلامی میں جاتے ہیں اور آپ کے پاس صرف رائٹ ٹو میچ کارڈ ہے، تو ٹیمیں کھلاڑیوں کی قیمت بڑھانے جاتی ہے۔

 

 

Related Articles