ڈارلنگز: گھریلو تشدد کے بارے میں عالیہ بھٹ کی فلم شائقین کے دل کیوں جیت رہی ہے؟
ممبئی۔اگست۔نہیں ہے۔ لیکن نیٹ فلکس کی نئی فلم ڈارلنگز میں اسے ڈارک کامیڈی یعنی مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ انداز شائقین کا دل جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ، شیفالی شاہ اور وجے ورما اس فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈارلنگز ایک مسلمان جوڑے کی محبت کی کہانی ہے، جس میں تشدد اور بدلا بھی شامل ہے۔یہ فلم دو محبت کرنے والوں بدرالنسا (عالیہ بھٹ) اور حمزہ ( وجے ورما) سے شروع ہوتی ہے ، وہ شادی کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہ کہانی کسی محبت میں مبتلا جوڑے کے ہنسی خوشی زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں ہے۔شادی کے تین سال بعد یہ جوڑا ایک مڈل کلاس علاقے میں گھر بساتا ہے لیکن بدرالنسا ایک ایسی زندگی جی رہی ہوتی ہے جس میں اس پر روزانہ کی بنیاد پر تشدد ہوتا ہے۔حمزہ کا کردار تشدد کرنے والا ایک ایسا شوہر ہے جو بدرالنسا کو ہر رات مارتا ہے اور صبح معافی مانگ لیتا ہے۔ وہ اس تشدد کی صفائی میں محبت کو وجہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’میں تمہیں اس لیے مارتا ہوں کیوں کہ مجھے تم سے محبت ہے اور محبت میں ایسا ہو جاتا ہے۔‘اور بدرالنسا حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے یہ سمجھتی ہے کہ حمزہ ایک دن بدل جائے گا۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر وہ اسے شراب پینے سے روک دے گی یا پھر اگر بچہ ہو جائے گا تو ان کے تعلقات مضبوط ہو جائیں گے۔لیکن جب وحشیانہ رویہ جاری رہتا ہے اور فلم کے نصف تک پہنچتے حمزہ تمام حدود پار کر جاتا ہے تو بازی پلٹ جاتی ہے۔ حمزہ کے ہاتھوں تشدد برداشت کرتی چلی آ رہی بدرالنسا اپنی ماں شمس النسا کی مدد سے حمزہ کو تشدد کے راستے سبق سکھانا شروع کر دیتی ہے۔ماں بیٹی مل کر شوہر کو اغوا کرتی ہیں، اسے اس کے اپنے گھر میں یرغمال بناتی ہیں اور اس کے ساتھ وہی سب کرتی ہیں جو وہ اپنی بیوی کے ساتھ کرتا رہا۔ہدایت کار جسمیت کے رین نے پرویز شیخ کے ساتھ مل کر یہ فلم لکھی بھی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس یہ کہانی ایک لائن میں بیان کیے گئے خیال کی شکل میں آئی تھی جس کا جنم ایک ماں بیٹی کے درمیان مزاحیہ گفتگو کے دوران ہوا تھا۔’میرا مرکزی خیال ماں بیٹی کے بارے میں تھا جو خواب دیکھتی ہیں، پھر کچھ غلط ہو جاتا ہے، بیٹی کی شادی میں مسائل آ جاتے ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے انھیں مضحکہ خیر طریقے سوجھتے ہیں۔ ماں بدظن ہو جاتی ہے اور اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہتی ہے کہ اس کا داماد کبھی نہیں بدلے گا اور وہ نہیں چاہتی کہ اس کی بیٹی بھی وہ تکلیف برداشت کرے جو خود اس نے کی۔ وہ اپنی بیٹی کو مشورہ دیتی ہے کہ اسے چھوڑ دے یا پھر قتل کر دے۔‘جسمیت کہتی ہیں ’لیکن یہ اس کی بیٹی کا سفر ہے جہاں وہ برداشت سے بدلے تک پہنچتی ہے اور پھر عقلمندی کا دامن تھامتے ہوئے تشدد کو ترک کرتی ہے۔‘نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی اس فلم کو ناظرین اور ناقدین دونوں کی جانب سے مثبت آرا مل رہی ہیں۔نیٹ فلکس کے مطابق یہ نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر میں بہت پسند کی جا رہی ہے۔بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں نیٹ فلکس کا کہنا تھا ’اسے ایسی انڈین فلموں میں جو انگلش زبان میں نہیں ہیں اب تک سب سے زیادہ اچھی اوپننگ ملی ہے، ناظرین نے ابتدائی ہفتے میں ہی اسے دیکھنے کے لیے ایک کروڑ گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف کیا۔‘بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ فلم متحدہ عرب امارات، سنگاپور، ملائیشیا ، کینیا، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سمیت امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے 16 ممالک میں ٹاپ 10 میں ٹرینڈ کر رہی ہے۔یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ فلم مقبول کیوں ہو رہی ہے۔ عالیہ بھٹ بالی وڈ کی مقبول ترین اداکاراؤں میں سے ایک ہیں جنہیں مداحوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہ ان کے پروڈکشن ہاؤس کی پہلی فلم ہے جسے انھوں نے شاہ رخ خان کے پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ مل کر بنایا ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جو خطے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر عام زندگیوں میں بسے ایک بڑے مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک خاتون کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ اور یہ تشدد عام طور پر ان کے شوہر یا سب سے قریبی تعلقات والے شخص کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ انڈیا کے لیے بھی یہی اعداد و شمار لاگو ہوتے ہیں جو ہر سال گھریلو تشدد کے معاملوں کی فہرست میں سب سے اوپر رہتا چلا آرہا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق 2020 میں انڈیا میں ایسے 112,292 شکایات پولیس کے پاس درج کرائی گئیں۔ یعنی ہر پانچ منٹ میں ایک رپورٹ کی گئی۔ لیکن اس صورت حال سے منسلک سب سے بڑا مسئلہ خاموشی سے تشدد برداشت کرنے کی روایت بھی ہے۔ حتیٰ کہ متعدد معاملوں میں اسے معاشرتی طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔ایک تازہ سرکاری سروے کے مطابق 40فیصد سے زیادہ خواتین اور 38 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر کچھ خاص حالات میں ہاتھ اٹھاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ اپنے ساس سسر کی عزت نہیں کرتی، اپنے گھر یا بچوں کا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتی، اسے بتائے بغیر گھر سے باہر قدم رکھتی ہے، کھانا نہیں پکاتی یا جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کرتی ہے تو اسے مارنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔اسی لیے جب حمزہ بدرالنسا کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارتا ہے تو ہمسائے بھی کان پر ہاتھ رکھ کر سب کچھ نظر انداز کر دیتے ہیں۔جسمیت کہتی ہیں کہ اس فلم کی تیاری کے دوران انہوں نے بہت سی خواتین سے بات کی اور زیادہ تر کا موقف تھا کہ گھریلو تشدد میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لوگوں نے اسی سب کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔انہوں نے بتایا ’میں نے بہت سی متاثرہ خواتین سے بات کی جو شادی شدہ ہیں اور ان حالات سے پریشان ہیں، جنہیں پتا تھا کہ انہیں تشدد کے بعد باتوں میں الجھایا جاتا ہے اور انہیں یہ امید رہتی ہے کہ ایک دن ان کے شوہر میں تبدیلی آجائے گی۔ لوگ تب جا کر کوئی سخت رد عمل دیتے ہیں جب ان کا کوئی بہت عزیز نقصان اٹھاتا ہے۔‘اس فلم کی ریلیز سے قبل ایک چھوٹا سا تنازع بھی کھڑا ہو گیا تھا جب مردوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ فلم مردوں کے خلاف تشدد کے خیالات کو فروغ دیتی ہے۔مردوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ سیو انڈین فیملی فاؤنڈیشن نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ ’اس فلم کا ٹریلر دیکھ کر گھریلو تشدد سے متاثرہ ہزاروں مرد حضرات کو ذہنی تکلیف کا سامنا ہوا۔‘ ٹوئیٹ میں عالیہ بھٹ کی فلم کا بائیکاٹ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔جسمیت ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہیں کہ ان کی فلم مردوں کے خلاف تشدد کو فروغ دیتی ہے۔انہوں نے بی بی سی سے کہا کہ ’گھریلو تشدد کا تعلق کسی ایک جنس سے نہیں ہے۔ اس سے مرد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ایک بے حد سنجیدہ مسئلہ ہے اور ہم موضوع کو بہت حساسیت اور ہم دردی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں ’ہم جانتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہم کسی بھی جنس کے خلاف تشدد کو فروغ نہیں دے رہے۔ تاہم فلم یہ پیغام دیتی ہے کہ تشدد کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اور اگر آپ نے فلم دیکھی ہے تو آپ کو سمجھ آ گیا ہوگا۔ اور اگر بغیر فلم دیکھے ہی کوئی اس کی مذمت کرے تو پھر میں کیا کہہ سکتی ہوں؟‘متعدد شائقین نے بھی فلم دیکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کی حمایت کی ہے۔ چند نے کہا کہ انہیں فلم دیکھ کر بہت مزہ آیا اور اس نے انہیں متاثر کیا۔ چند نے یہ بھی کہا کہ فلم دیکھ کر انہیں انڈیا جیسے پدرشاہی والے معاشرے میں ہمت ملی جہاں گھریلو تشدد کی زد میں بیشتر خواتین ہوتی ہیں۔ٹوئٹر پر دیپ جیسوال نے لکھا کہ ’فلم ڈارلنگز مردوں کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ جنس کی بنیاد پر تفریق کو اجاگر کرتی ہے اور پدرشاہی کے خیالات کے خلاف خاموشی کو توڑتی ہے۔‘انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’ہم سڑکوں پر خواتین کے تحفظ پر اتنا غور کر رہے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ گھر اور وہ لوگ جن پر وہ بھروسہ کرتی ہیں اکثر انہی سے خواتین کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔‘جسمیت خوش ہیں کہ فلم لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔انھوں نے کہا ’کوئی بھی فلم اس لیے بنائی جاتی ہے کہ لوگوں کو مزہ آئے اور وہ اس کے ساتھ تعلق محسوس کر سکیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی قسم کے آرٹ کا ستعمال ضروری باتیں کہنے کے لیے ہونا چاہیے اور ہماری فلم لوگوں سے ایک بہت اہم اور نازک مسئلے کے بارے میں بات کرتی ہے۔‘وہ کہتی ہیں ’ہم اس گفتگو کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے کردار سماج کی عکاسی کرتے ہیں اور ہم چاہتے تھے کہ فلم گھریلو تشدد کے بارے میں بات کرے۔ مجھے لگتا ہے ہم جو چاہتے تھے وہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘