نسل کشی کا موازنہ ایک قتل سے نہیں کیا جاسکتا: سپریم کورٹ
نئی دہلی، اپریل۔ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس میں 11 قصورواروں کے بری کئے جانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے منگل کو کہا کہ آپ (گجرات حکومت) سیب کا موازنہ سنترے سے نہیں کر سکتے، اسی طرح نسل کشی کا موازنہ ایک قتل سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگرتنا کی بنچ نے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو کو بتایا کہ جب زیرِ بحث جرم ’’گھناؤنا‘‘ اور ’’خوفناک‘‘ ہے تو ریاستی حکومت پر یہ فرض ہے کہ وہ دماغ کا استعمال کرے۔بنچ نے قصورواروں کو چھوڑنے سے متعلق دستاویز نہیں دکھانے پر مسٹر راجو سے کہا کہ "آج یہ عورت (بلقیس) ہے۔ کل یہ آپ یا میں ہو سکتے ہیں۔ معروضی معیارات ہونے چاہئیں۔ اگر آپ ہمیں وجوہات نہیں بتائیں گے تو ہم اپنے نتائج اخذ کریں گے۔”عدالت عظمیٰ نے اس حقیقت کا بھی نوٹس لیا کہ ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور کئی لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کیس کا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 302 (قتل) کے معیاری مقدمات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔بنچ نے مسٹر راجو سے کہاکہ ‘جس طرح آپ سیب کا سنترے سے موازنہ نہیں کر سکتے، اسی طرح نسل کشی کا موازنہ قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔ جرائم عام طور پر معاشرے اور برادری کے خلاف کیے جاتے ہیں۔ غیر مساوی لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جا سکتا۔”بنچ نے سماعت کے دوران قصورواروں کو دی گئی چھوٹ سے متعلق فائلوں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے میں گجرات حکومت کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا۔سپریم کورٹ نے 2 مئی کو بلقیس بانو اور سابق سی پی ایم ایم پی سبھاشینی علی کی درخواستوں پر مزید سماعت کے لیے مقرر کیا، جس میں 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو چیلنج کیا گیا تھا۔