ملکہ جذبات میناکماری کوپیدائش کے وقت ان کے والد یتیم خانے چھوڑ آئے تھے
ممبئی، مارچ۔ اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو چھو لینے والی عظیم اداکارہ مینا کماری حقیقی زندگی میں ’’ ملکہ جذبات ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔لیکن وہ چھ ناموں سے جانی جاتی تھیں۔ممبئی میں یکم اگست 1932 کو ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں مینا کماری جب پیدا ہوئیں تو باپ علی بخش انہیں یتیم خانے چھوڑ آئے کیونکہ دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد اس بات کی دعا کررہے تھے کہ اللہ اس مرتبہ بیٹے کا منہ دکھادے تبھی انہیں بیٹی ہونے کی خبرآئی اور وہ بچی کو گھر نہ لے جاکر یتیم خانے چھوڑ آئے۔ لیکن بعد میں ان کی بیوی کے آنسوؤں نے بچی کو یتیم خانے سے گھر لانے کے لئے مجبور کر دیا۔مینا کماری کی ماں اقبال بانو نے ان کا نام ’’ماہ جبیں‘‘ رکھا۔بچپن کے دنوں میں مینا کماری کی آنکھیں بہت چھوٹی تھیں اس لئے خاندان والے انہیں ’’چینی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ تقریبا ًچار سال کی عمر میں 1939 میں بطور چائلڈ آرٹسٹ انہوں نے فلموں میں اداکاری کرنی شروع کر دی تھی۔ پرکاش پکچرس کے بینر تحت بنی فلم ’’لیدر فیس‘‘میں ان کا نام بے بی مینا رکھا گیا۔اس کے بعد مینا نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ میں بطور اداکارہ کام کیا۔ اس فلم میں انہیں’’ مینا کماری‘‘ کا نام دیا گیا۔1952میں میناکماری کو وجے بھٹ کی ہدایت میں بیجو باورا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کامیابی کے بعد وہ بطور اداکارہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔سال 1952 میں مینا کماری نے فلم ساز کمال امروہی کے ساتھ شادی کر لی۔ 1962 ان کے فلمی کریئر کے لئے کامیاب ثابت ہوا۔ ’’آرتی، میں چپ رہوں گی اورصاحب بیوی اور غلام ‘‘جیسی فلمیں منظر عام پر آئیں اور اپنی بہترین اداکاری کے لئے وہ فلم فیئر ایوارڈ کے لئے نامزد کی گئیں۔ فلم فیئر کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ایک اداکارہ کو فلم فیئر کے تین نومنیشن ملے تھے۔ 1964 میں کمال امروہی کے ساتھ ان کی شادی شدہ زندگی میں تلخی آ گئی اور دونوں علاحدہ رہنے لگے۔کمال امروہی کی فلم ’’پاکیزہ‘‘کی تخلیق میں تقریبا ًچودہ برس لگ گئے باوجودیکہ کمال امروہی سے الگ ہونے کے باوجود مینا کماری نے شوٹنگ جاری رکھی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پاکیزہ جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع بار بار نہیں مل پاتا ہے۔مینا کماری کی جوڑی اشوک کمار کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔ بہترین اداکاری کے لئے انہیں چار بار فلم فیئر کے بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان میں’’بیجو باورا، پرینیتا، صاحب بیوی اور غلاماور ’’کاجل‘‘ شامل ہیں۔مینا کماری اگر اداکارہ نہیں ہوتیں تو شاعر ہ کے طور پر اپنی شناخت بناتیں۔ہندی فلموں کے نغمہ نگار اور شاعر گلزار سے ایک بار مینا کماری نے کہا تھا، ’’یہ جو اداکاری میں کرتی ہوں اس میں ایک کمی ہے۔یہ فن، یہ آرٹ مجھ میں پیدا نہیں ہوا ہے، خیال دوسرے کا، کردار کسی کا اور ہدایت کسی کی ۔ میرے اندر سے جو پیدا ہوا ہے، وہ میں لکھتی ہوں، جو میں کہنا چاہتی ہوں، وہ لکھتی ہوں۔‘‘ مینا کماری نے اپنی وصیت میں اپنی نظمیں چھپوانے کا ذمہ گلزار کو دیا تھا جسے انہوں نے ’’ناز‘‘ تخلص سے چھپوايا۔ ہمیشہ تنہا رہنے والی مینا کماری نے اپنی مشتمل ایک غزل کے ذریعے اپنی زندگی کا نظریہ پیش کیا ہے۔
’’چاند تنہا ہے آسماں تنہا
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا
راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک
چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا ‘‘
تقریباً تین دہائیوں تک اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں پر راج کرنے والی ہندی سنیما کی عظیم اداکارہ مینا کماری 31 مارچ 1972 کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئیں۔ ۔مینا کماری کے کیریئر کی دیگر قابل ذکر فلموں میں آزاد، ایک هي راستہ، یہودی، دل اپنا اور پریت پرائی، کوہ نور، دل ایک مندر، چترلیکھا، پھول اور پتھر، بہو بیگم، شاردا، بندش ، بھيگي رات، جواب اور دشمن شامل ہیں۔