محمود عباس کا اسرائیل سے 25 "سینئر” قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ
رام اللہ،فروری۔فلسطینی عوام اسرائیلی جیلوں میں اپنے قیدیوں کو "اسیرانِ آزادی” شمار کرتے ہوئے قدر اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے اس واسطے اپنی جوانی قربان کر دی کہ فلسطینی قوم کے بقیہ افراد آزاد سرزمین پر سانس لے سکیں۔ یہ احترام اْن قیدیوں کے معاملے میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جن کی گرفتاری کو 20 برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایسے سینئر قیدیوں کو "عمداء ” کا نام دیا جاتا ہے۔اسرائیلی جیلوں میں "عمداء ” قیدیوں کی تعداد 121 سے زیادہ ہے اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں 500 سے زیادہ قیدی ایسے ہیں جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر 2002ء سے 2003ء کے درمیان دوسری انتفاضہ تحریک کے دوران میں گرفتار ہوئے تھے۔واضح رہے کہ 2000ء میں دوسری انتفاضہ تحریک کے آغاز پر اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد 1500 سے زیادہ نہیں تھی۔ تاہم پھر انتفاضہ میں تیزی آنے اور مسلح عسکری کارروائیوں کی صورت اختیار کر جانے کے بعد قیدیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔سال 2013ء میں امریکا کی سرپرستی میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ اس بات پر اتفاق ہوا کہ فریقین کے درمیان بات چیت کا دوبارہ آغاز ہو گا۔ اس کے مقابل اسرائیل کی جانب سے 104 فلسیطینی قیدیوں کو چار قسطوں میں آزاد کیا جائے گا۔ مذکورہ قیدیوں کی گرفتاریاں اوسلو معاہدے سے قبل عمل میں آئی تھیں۔ یہ معاہدہ 1993ء میں طے پایا تھا۔ تاہم اسرائیل نے 78 قیدیوں کی رہائی کے بعد چوتھی اور آخری کھیپ (25 قیدیوں) کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے سبب فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ 2014ء میں رک گیا۔اس کے بعد سے فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل سے براہ راست یا پھر امریکی ذمے داران کے ذریعے اس چوتھی کھیپ کو "حسن نیت” کے جذبے سے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے گذشتہ مہینوں کے دوران میں اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز سے ہونے والی دو ملاقاتوں میں ان بقیہ 25 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ کہتے ہیں کہ "مذکورہ قیدیوں کو فلسطینی قوم کا ہیرو شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ، ہم ان سے ہر گز دست بردار نہیں ہوں گے”۔ابو ردینہ نے واضح کیا کہ تمام قیدیوں کی رہائی کے بغیر اسرائیل کے ساتھ امن ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ان قیدیوں کی تعداد تقریبا پانچ ہزار ہے۔