لتا نے محمد رفیع، ایس ڈی برمن کے ساتھ کام کرنا کیوں چھوڑا؟
ممبئی،فروری۔لتا منگیشکر نے بھارتی سنیما میں گائیگی کا ایک طویل سفر طے کیاجس میں انہیں شہرت کی بلندیاں حاصل ہوئیں تو وہیں وہ بعض تنازعات کا بھی حصہ رہیں۔ساتھی گلوکار محمد رفیع سے ناراضی ہو، فلم ساز و ہدایت کار راج کپور کے ساتھ کام کرنے سے انکار یا پھر ایس ڈی برمن اور او پی نیر کی دھنوں کو اپنی آواز نہ دینا، یہ سب لتا منگیشکر کے کریئر کے وہ واقعات ہیں ان کے طویل فنی سفر کے پڑاؤ ہیں۔ان میں سے او پی نیر کے سوا لتا جس سے بھی روٹھیں بعد میں مان بھی گئیں اور ان کے ساتھ دوبارہ کام بھی شروع کردیا۔ لیکن اوپی سے ان کی رائیں ایسی جدا ہوئیں کہ دونوں نے پھر کبھی ساتھ کام نہیں کیا۔ایسے کون سے واقعات تھے جن کی وجہ سے لتا منگیشکر نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کو درست سمجھا اور جن کی وجہ سے ان کے دوست، دوست نہ رہے، جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
روٹھ کر ساتھی فنکاروں کے ساتھ کام نہ کرنے والی لتا!سن 1957 میں موسیقار ایس ڈی برمن نے اپنے ایک انٹرویو کہا کہ لتا منگیشکر کی کامیابی میں ان کا ہاتھ ہے۔اس انٹرویو کے چھپنے کے بعد لتا منگیشکر نے 1958 سے 1963 تک ان کے ساتھ کام نہیں کیا۔ بعد میں آر ڈی برمن کی وجہ سے دونوں نے ماضی کو بھلا کر ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ کام شروع کردیا۔لیکن موسیقار او پی نیر کا معاملہ کچھ اور تھا۔ 1952 میں او پی نیر نے لتا سے ایک ایسا گانے کی فرمائش کی جو ہیروئن کے بجائے سائیڈ رول ادا کرنے والی اداکارہ پر فلمایا جانا تھا۔ لتا کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے یہ گیت گانے سے انکارکردیا۔پھر کیا تھا، موسیقار او پی نیر نے بھی اسی وقت اعلان کردیا کہ وہ لتا منگیشکر کے بغیر ہی بالی وڈ میں کامیاب ہو کر دکھائیں گے۔سن 1950 اور 1960 کی دہائی میں مسٹر اینڈ مسز 55 ، نیا دور ، سی آئی ڈی ، پھر وہی دل لایا ہوں اور کشمیر کی کلی جیسی فلموں کے لیے او پی نیر کی دھنیں بہت مقبول ہوئیں۔ او پی نیر اپنے پورے کریئر میں لتا کے ساتھ کام نہ کرنے کی اپنی بات پر قائم رہے۔ انہوں لتا کی چھوٹی بہن آشا کے ساتھ تو کام کی لیکن 1952 کے بعد اوپی نیر کی موسیقی اور لتا کی آواز کا سنگم کبھی نہ ہوسکا۔
اپنے جائز حق کے لیے لڑنے والی لتا:سن 1960 کی دہائی کے آغاز میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس کے بعد لتا نے مہندرا کپور اور رفیع نے سمن کلیانپوری کے ساتھ اپنا اپنا پئیر بنالیا۔ لتا اور رفیع نے کئی برس تک کوئی گانا ساتھ ریکارڈ نہیں کرایا اور اس کی سب سے بڑی وجہ رائلٹی کا معاملہ تھا جس پر دونوں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے۔محمد رفیع کی بہو یاسمین خالد رفیع نے اپنی کتاب میں یہ ماجرا بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد رفیع کے خیال میں فلم کے سنگر کا گانوں پر کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ جب کہ لتا کے مطابق جب موسیقار کو رائلٹی ملتی ہے تو گانے والوں کو بھی ان کا حق ملنا چاہیے۔بعد میں دونوں عظیم گلوکاروں کے درمیان صلح ہوگئی تھی اور دونوں نے مجموعی طور پر 400 سے زائد گانے ساتھ گائے۔رائلٹی ہی کے معاملے پر لتا منگیشکر نے کئی سال تک راج کپور کے ساتھ بھی کام نہیں کیا لیکن بعد میں راج کپور نے لتا کو رائلٹی دینے کی حامی بھر کر صلح کر لی تھی۔
زہر ملا کھانا:لتا منگیشکر نے اپنے سوانح پر لکھی ایک کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ اْنہیں 1960 کی دہائی کے آغاز میں آہستہ آہستہ زہر دیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ تین ماہ بیمار رہیں۔لتا کے مطابق انہیں اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب انہیں طبیعت بگڑ جانے کی وجہ سے اسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ انہیں آہستہ آہستہ زہر دیا جا رہا تھا۔جب لتا منگیشکر کی بہن اوشا نے اس معاملے میں چھان بین کی تو اْن کا نوکر بغیر بتائے اور بغیر تنخواہ وصول کیے نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔اس واقعے کے بعد لتا منگیشکر کافی کمزور ہوگئی تھیں اور کافی عرصے تک ریکارڈنگ پر بھی نہیں جاسکی تھیں۔
استاد سلامت علی خان سے عقیدت:کچھ سال قبل ایک پاکستانی صحافی نے لتا منگیشکر کو ایک ایسے اسکینڈل کا کردار بنا کر پیش کیا جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ان صحافی کے بقول جس زمانے میں سارا جگ لتا کا مداح تھا، وہ استاد سلامت علی خاں کی دیوانی تھیں۔استاد سلامت علی خان کے بیٹے شفقت سلامت علی خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں نہ صرف اس خبر کو بے بنیاد قرار دیا تھا بلکہ ان کے بقول دونوں میں استاد اور شاگرد کا معتبر رشتہ تھا۔ ان کے مطابق لتا منگیشکر نے استاد سلامت علی خان کو کبھی شادی کی پیشکش کی اور نہ ہی دونوں عظیم فن کاروں کے درمیان کوئی ایسا معاملہ تھا۔لتا منگیشکر نیاپنے کریئر کے آغاز میں استاد بڑے غلام علی خان اور استادامیر خان سے بہت کچھ سیکھا۔ اسی طرح وہ استاد سلامت علی خان کو بھی اپنا استاد مانتی تھیں۔شفقت سلامت علی کا کہنا تھا کہ وہ 1989 میں اپنے والد استاد سلامت علی کے ساتھ لتا جی سے ملنے ان کے گھر گئے تھے۔ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو ان کے والد لتا سے ملنے کبھی ان کے گھر نہیں جاتے اور نہ ہی لتا جی ان کے ساتھ ے اتنی عزت سے پیش آتیں۔