عراق اور شام میں داعش سے منسلک متعدد عسکریت پسند افغانستان میں سرگرم ہیں، پوٹن
ماسکو/سی آئی ایس،اکتوبر۔روسی صدر ولادی میر پوٹن نے روس کے زیر اثر کامن ویلتھ کی ریاستوں (سی آئی ایس) کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ایک آن لائن اجلاس میں افغانستان سے شدت پسندی کے خطرے کے خلاف خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ متعدد بین الاقوامی دہشت گرد گروہ افغانستان میں کام کر رہے ہیں ۔بقول ان کے، عراق اور شام میں داعش کے ساتھ مل کر لڑنے والے متعدد عسکریت پسند اب افغانستان میں سرگرم ہیں اور یہ گروہ سی آئی ایس کی ریاستوں کی سیکیورٹی کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔صدر پوٹن کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے اس خطرے اور طالبان کی جانب سے خود کو دنیا سے تسلیم کرانے کی کوششوں پر پڑنے والے اس کے سیاسی اثرات کے بارے میں ماہرین کی آراء میں اختلاف ہے۔افغان امور کے ماہر اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ، بریگیڈیر سعد نذیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا امکان یقیناً موجود ہے کہ اگر افغانستان اسی طرح غیر مستحکم رہتا ہے اور دنیا اس سے رابطے میں نہیں رہتی تو ایسے ماحول میں اس قسم کے گروپوں کے پنپنے اور دوسرے ملکوں کے لئے خطرات پیدا کرنے کے خدشات موجود رہتے ہیں۔بقول ان کے، دوسرے یہ کہ داعش کا خراسان دھڑا پہلے سے افغانستان میں موجود ہے، القاعدہ کے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے امریکہ سمیت دنیا کے بڑے ملکوں کو طالبان کی مدد کرنی چاہئے، کیونکہ طالبان اکیلے اس خطرے سے نہیں نمٹ سکتے۔ خیال رہے کہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والی بات چیت میں امریکہ نے طالبان کو پیشکش کی تھی کہ وہ داعش کے خلاف کارروائی میں ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ مگر طالبان نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ایک سوال کے جواب میں بریگیڈیر سعد نذیر نے کہا کہ اگر یہ خطرہ حقیقت بن گیا تو طالبان کے لئے اس کے عالمی سطح پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے جو نہ صرف دنیا سے خود کو تسلیم کرانے کے لئے کوشاں ہیں بلکہ دنیا سے یہ وعدہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان سے پوچھا گیا کہ دنیا کے 20 بڑے ملکوں کی جانب سے افغان عوام کی براہ راست امداد کے پروگرام میں کیا روس اور چین بھی مدد کرنے والوں میں شامل ہوں گے، بریگیڈیر سعد نذیر نے کہا کہ ان کے لئے دونوں راستے ہیں۔ وہ جی 20 ملکوں کے ساتھ مل کر بھی مدد کرسکتے ہیں اور اپنے طور ہر الگ سے بھی مدد کر سکتے ہیں، اور یوں اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔عالمی امور کے ماہر اور ممتاز تجزیہ کار، پروفیسر حسن عسکری نے کہا ہے کہ ان اطلاعات کی ابھی کسی اور ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی کہ، بقول پوٹن، عراق اور شام سے دہشت گرد افغانستان آ رہے ہیں؛ کیونکہ عراق یا شام سے افغانستان پہنچنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ البتہ وہاں پہلے سے موجود گروپ منظم ہو سکتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام ہونے کی صورت میں دوسرے ملکوں کے لئے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔انہون نے کہا کہ عراق اور شام سے آنے والے بیشتر عربی بولنے والے ہوں گے جب کہ افغانستان میں داعش زیادہ تر طالبان جیسے گروپوں سے الگ ہو کر آنے والوں پر مشتمل ہے اور ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان میں عربی بولنے والے کسی قابل ذکر تعداد میں موجود ہوں۔حسن عسکری نے کہا کہ یہ صدر پوٹن کے خدشات ہو سکتے ہیں، جن کے حقیقی ہونے کے کوئی دوسرے شواہد ابھی تک نہیں ملے۔اس سوال کے جواب میں کہ روسی صدر کی جانب سے ان خطرات کے اظہار کے بعد دنیا خاص طور پر G20 کے ممالک افغان عوام کی براہ راست مدد کے لئے جو اقدامات کر رہے ہیں کیا وہ متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دوسرے ذرائع سے ان خدشات کے حقیقی ہونے کا ثبوت نہ مل جائے، باقی دنیا اس پر یقین کرنے کے لئے تیار نہں ہو گی۔ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی میں مقیم ایک افغان صحافی اور رائٹر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قندوز میں ایک مسجد پر حملے اور داعش کی جانب سے اس کی ذمہ داری کا قبول کیا جانا بتاتا ہے کہ صدر پوٹن اور دوسرے وسط ایشیائی ملکوں کے داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں جو تحفظات ہیں وہ بہت زیادہ بے بنیاد نہیں ہیں۔ڈاکٹر یاسا کا کہنا تھا کہ چین اور روس کے درمیان ہر چند کہ بیشتر عالمی معاملات پر ہم آہنگی نظر آتی ہے، لیکن افغانستان کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی مفادات کے حوالے سے کچھ اختلافات بھی موجود ہیں جن کا اظہار آنے والے دنوں میں بدلتے ہوئے حالات میں ہو سکتا ہے۔