صوفی روایات اور سینیگال کا مقدس شہرِ توبہ
توبہ،سینیگال،ستمبر۔افریقی ملک سینیگال کے توبہ نامی شہر کو اس ملک کا مقدس ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکام نے اس خطے میں مریدیہ صوفی سلسلے کے بانی شیخ احمدو بمبا کو بطور سزا اسی شہر میں جلاوطن کیا تھا۔گزشتہ اتوار کو سینیگال کے مقدس شہر توبہ میں ہر طرف زائرین کا ہجوم تھا۔ مریدیہ سلسلے کے اس سالانہ اجتماع پر ملک بھر سے لوگ اس شہر میں آتے ہیں۔ یہ اجتماع توبہ شہر کی سب سے بڑی مسجد میں ہوتا ہے، جہاں صوفی سلسلے مریدیہ کے بانی شیخ احمدو بمبا کی قبر بھی ہے۔ اس موقع پر توبہ کی سڑکوں پر ہر طرف ہجوم ہی ہجوم ہوتا ہے اور دور دور تک ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ اس اجتماع کا نام گرینڈ میگل‘ ہے اور اس کا انعقاد ہر سال اسی دن کیا جاتا ہے، جس دن فرانسیسی نوآبادیاتی حکام نے شیخ احمدو بمبا کو بطور سزا اسی شہر میں جلاوطن کیا تھا۔ اس دن کو سیرگنی توبہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس مغربی افریقی ملک کی تاریخ کا ایک اہم دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر سے لاکھوں زائرین شیخ احمدو بمبا کا کلام پڑھتے ہیں اور مقبرے پر حاضری دیتے ہوئے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔سینیگال کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ صوفی سلسلے مریدیہ کے ہی پیروکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیگال کی معیشت اور سیاست میں اس صوفی سلسلے کا انتہائی اہم کردار ہے۔شیخ احمدو بمبا نے اس شہر کی بنیاد 1888ء میں رکھی تھی اور اس کے بعد سے اس کی آبادی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب توبہ شہر دارالحکومت ڈاکار کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر بن چکا ہے اور اس کی آبادی تقریبا پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ سالانہ اجتماع ویسے تو ایک مذہبی تہوار ہے لیکن اس کی سیاسی اہمیت بھی ہے۔ ملک کے تمام بڑے سیاستدان اس میں شامل ہوتے ہیں تاکہ عوام کی پسندیدگی حاصل کر سکیں۔
شیخ احمدو بمبا کون تھے؟احمدو بمبا کا تعلق سینیگال کے ایک قدیم خاندان سے تھا اور ان کے والد قادریہ صوفی سلسلے کے ایک عالم سمجھے جاتے تھے۔ بامبا نے ابتدائی عمر میں ہی قرآن سیکھا اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے تصوف پر سولہ سو مصرعوں پر مشتمل ایک نظم لکھی تھی، جو آج بھی بہت مشہور ہے۔احمدو بمبا وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں انتہائی مشہور ہوتے گئے اور ان کے صوفیانہ کلام کی وجہ سے ان کے پیروکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت خطے میں مختلف علاقوں پر قبضہ کر رہی تھے۔ فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت بمبا کی بڑھتی ہوئی شہرت سے پریشان تھی اور اسے ڈر تھا کہ ان کے پیروکار ان کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔فرانسیسی حکومت نے احمدو بمبا کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ پیروکاروں میں اس وقت کے کئی قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ کئی روایات میں احمدو بمبا کی کرامات مشہور ہیں کہ کس طرح انہوں نے لوہے کی زنجیروں سے خود کو آزاد کروایا اور نماز ادا کی۔ اسی طرح یہ کہانی بھی مشہور ہے کہ وہ پانی پر چل سکتے تھے۔تاہم ان روایات کی تصدیق تو ممکن نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ احمدو بمبا فرانسیسی قبضے کے خلاف تھے اور ایک اسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ فرانسیسی حکام کو بعدازاں احساس ہوا کہ وہ کوئی مسلح جدو جہد نہیں چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے کئی برس بعد فرانسیسی حکام نے ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک اعلی ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا لیکن انہوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تب فرانسیسی حکام نے انہیں توبہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دیے رکھی۔ فرانسیسی حکام کے مطابق احمدو بمبا کے ساتھ اچھے تعلقات ان کے اپنے معاشی مفادات کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے تھے۔ احمدو بمبا کی وفات انیس سو ستائیس میں ہوئی اور انہیں وہاں ہی دفن کیا گیا۔