شمولیاتی تنوع کے فوائد کو محسوس کرنے کے لیے ترقی اور کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت: رام داس اٹھاولے
نئی دہلی، جولائی۔ہمیں شمولیاتی تنوع کے فوائد کو محسوس کرنے کے لیے ہر شخص کی ترقی اورکامیابی کی کئی کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔معذور افراد کو بااختیار بنانے اور سماج میں انھیں باوقار زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر مملکت برائے سماجی انصاف و تفویض اختیارات مسٹر رام داس اٹھاولے نے فکی کے زیر اہتمام ”انکلوزیو اینڈ ڈائیورسٹی کنکلیو“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیرموصوف نے مزید کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے پسماندہ طبقات کو مرکزی دھارے کی معیشت میں شمولیت کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور کارپوریٹ انڈیا کو پسماندہ طبقے کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کی ہے، خصوصاً کام کی جگہوں کی شمولیت اور پائیدار معاش میں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گوتم بدھ نگر کے ضلع مجسٹریٹ مسٹر سوہاس لالینکیرے یتی راج نے سامعین کو اپنی معذوری کے بارے میں فکر کرنے سے باز رہنے کی ترغیب دی۔انہوں نے کہا کہ ”اگر آپ کے پاس کچھ مختلف ہے تو،اصل چیلنج فکر پر قابو پانا ہے۔چیلنج توسچائی کا پیچھا کرنا اور جو ہمارے پاس ہے اسے قبول کرنا ہے“۔ پسماندہ اور کمزور طبقات کی مسابقت کو بہتر بنانے کے بارے میں سامعین کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسٹر یتی راج نے کہا کہ مواقع کی مساوات کو یقینی بنانا ضروری ہے۔معاشرے کو مواقع کی مساوات کو یقینی بنانا چاہیے،یہ انفرادی طور پر طے کرنا ہے کہ آیا نتیجہ برابر ہوگا یا متنوع۔اپنے خیرمقدمی کلمات میں فکی کے صدر سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر، ہندوستان یونی لیور لمیٹڈ، صدر، یونی لیور ساؤتھ ایشیا اور ممبر، یونی لیور لیڈرشپ ایگزیکٹو (گلوبل ایگزیکٹو بورڈ) سنجیومہتہ نے کہا کہ ہندوستان میں بہت سے کارپوریٹ اب تسلیم کرتے ہیں کہ ڈی اینڈ آئی کی کوششیں نہ صرف اچھی کارپوریٹ پالیسی ہیں بلکہ حقیقی معاشی اور کاروباری اثرات رکھتی ہیں۔اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ جو کمپنیاں زیادہ متنوع اور جامع ہیں، ان کی مالی کارکردگی بہترہوتی ہے۔ مسٹر مہتہ نے تنوع اور شمولیت کی کوششوں کوزمینی سطح پر لانے اور فروغ دینے کے لیے ایک پانچ نکاتی ایکشن پلان کا اشتراک کیا۔ انہوں نے کہاکہ غیر امتیازی کاروباری پالیسیاں متعارف کروائیں، تعصب سے پاک اور مساوی کام اور بھرتی کے مواقع پیش کریں، قابل رسائی کام کی جگہیں بنائیں، قابل رسائی ٹیکنالوجی کو اپنائیں اور قابل رسائی مواد کو یقینی بنائیں۔ مسٹر مہتہ کے مطابق آبادی کا 48 فیصد ہونے کے باوجود ہندوستان میں خواتین افرادی قوت کا صرف 20 فیصد حصہ ہے۔ مزید یہ کہ ملک میں 26.9 بلین معذور افراد میں سے صرف ایک تہائی ملازم ہیں۔ علاوہ ازیں عالمی بینک کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں جی بی ٹی کیو افراد کے ساتھ امتیازی سلوک سے ملک کومعاشی پیداوار میں سالانہ 32 بلین امریکی ڈالر تک کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ کمزور طبقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر مہتہ نے کہاکہ خواہ یہ صنفی مساوات، معذور افراد کو بااختیار بنانے اور ایل جی بی ٹی کیوپلس طبقات کی شمولیت کے بارے میں ہو، میں نجی شعبے سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کام کی جگہ کی پالیسیوں اور طریقوں پر زور دیا جائے جس سے افراد کے کام کو باوقار، شمولیاتی اور بااختیارکاری کویقینی بنایا جائے۔ محترمہ ریکھا ایم مینن، چیئر پرسن اور سینئر منیجنگ ڈائریکٹر، ایکسینچر انڈیا نے”ہندوستان میں جامع ترقی کے بارے میں امید افزا احساس کیا۔ انہوں نے چار کلیدی رجحانات کا خاکہ پیش کیا – ہندوستان کے آبادیاتی مواقع، اسٹیک ہولڈر کیپٹلزم جو جامع ترقی، ٹیکنالوجی اور متنوع افرادی قوت رکھنے کے لیے سازگار کاروباری لازمی ضرورت پر زور دیتا ہے – جو جامع ترقی کے لیے ایک ٹھوس کیس بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنظیمیں قائدانہ کردار ادا کرنے اور فوری طور پر اپنے کاروبار اور اردگرد پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہیں۔ کاروبار اپنارول اداکر سکتے ہیں اور انہیں کاروبار کو لازمی قرار دے کر اپنارول اداکرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنظیمیں ماحولیاتی نظام اور ویلیو چینز کی حمایت کرکے اور جامع سماجی اثرات پیدا کرنے کے اقدامات کے لیے تعاون کرکے بھی اثر ڈال سکتی ہیں۔ اپنی تنظیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے محترمہ مینن نے کہا کہ ہم اپنی کامیابی کی پیمائش نہ صرف اپنے مالی نتائج سے کرتے ہیں بلکہ اپنے تمام فریق کے لیے 360 ڈگری ویلیو بنا کر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2035ایکسینیچر تک صنفی مساوات کا حامل ہوگا۔مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس وقت خواتین عالمی سطح پراور ہندوستان میں ہماری افرادی قوت کا 47فی صد ہیں۔ فکی ٹاسک فورس آن ڈی اینڈ آئی کے شریک چیرمین کیشو سوری،ایگزیکٹو ڈائریکٹر للت سوری ہاسپیٹلیٹی گروپ اور دی کیشو سوری فاؤنڈیشن کے بانی نے کہا کہ شمولیت اور تنوع کو چھونے، محسوس کرنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔جب لوگ اپنی برادری میں سے کسی کو دیکھتے ہیں تو ان میں یکجہتی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ کاروبار کے لیے برا ہو سکتا ہے۔اپنے اختتامی کلمات میں فکی کی سابق صدر،مینٹور،فکی ٹاسک فورس برائے ڈی اینڈ آئی اور چیئرپرسن اور سی ایم ڈی للت سوری ہاسپٹلٹی گروپ ڈاکٹر جیوتسنا سوری نے کہا کہ کمزور طبقوں کے چیلنجز: خواتین، معذور افراد،ایل جی بی ٹی کیو پلس وسیع برادری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر کسی کو خواہ حکومت ہو یا صنعت ایک ایسا ماحولیاتی نظام بنانے کے لیے یکجا ہونا چاہیے جو کمزور طبقات کو عزت کے ساتھ رہنے اور کام کرنے اور معاشرے میں اپنا رول اداکرنے کا موقع فراہم کرے۔ تنوع اور شمولیت تعمیل کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ عزم کے بارے میں ہے۔