سنجے لیلا بھنسالی نے غصے میں فلم ’گنگوبائی‘ بنائی اور نتیجہ۔۔۔

ممبئی،مارچ۔ ہم دل دے چکے صنم ، دیوداس ، گولیوں کی راسلیلا راملیلا ، باجی راؤ مستانی اور پدماوت جیسی فلمیں بنانے والے فلمساز و ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم گنگوبائی کاٹھیاواڑی کو شائقین کی جانب سے بے حد پسند کیا جا رہا ہے اور یہ فلم انھیں سینما گھروں تک کھینچ رہی ہے۔فلم نے اب تک 60 کروڑ روپے سے زائد کی کمائی کی ہے۔ گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی کامیابی سے مطمئن سنجے لیلا بھنسالی نے بی بی سی سے اپنی فلموں کے متعلق بات کی۔
غصے کا نتیجہ گنگوبائی کاٹھیاواڑی:گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی کہانی سنجے لیلا بھنسالی کے ذہن میں ہم دل دے چکے صنم کے وقت سے تھی۔ لیکن وہ بطور ہدایت کار اس فلم کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ کہانی کے ساتھ جی رہے تھے۔اس دوران انھوں نے بلیک ، گزارش ، سانوریا جیسی کئی فلمیں بنائیں لیکن وہ فلمیں کامیابی کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکیں۔ایسے میں سنجے لیلا بھنسالی نے تاریخی فلموں کا رخ کیا اور باجی راؤ مستانی اور پدماوت جیسی فلمیں بنائی جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔ پدماوت کے بعد سنجے لیلا بھنسالی معروف ادکار سلمان خان کے ساتھ انشااللہ نامی فلم بنانے کے لیے تیار تھے۔ فلم کا گرینڈ سیٹ بھی بنایا گیا تھا لیکن شوٹنگ سے قبل اچانک سنجے لیلا بھنسالی اور سلمان خان کے درمیان رسہ کشی کی خبریں آئیں اور فلم نہیں بن سکی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے بتایا کہ جب انشااللہ نہیں بنی تو انھیں بہت غصہ آیا۔وہ سوچنے لگے کہ ایسا کیوں ہوا؟ پدماوت کے بعد شاندار سیٹ بنانے کے بعد اسے بند کرنا پڑا۔ وہ تقریباً ایک ہفتے تک غصے رہے۔ پھر سنجے لیلا بھنسالی نے گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی سکرپٹ پر کام کرنا شروع کیا۔ انشااللہ کے دوران اداکارہ عالیہ بھٹ سے ان کی ملاقات ہو چکی تھی۔ بعد میں سنجے لیلا بھنسالی نے عالیہ کو گنگوبائی کاٹھیاواڑی کے کردار کی پیشکش کی۔عالیہ بھٹ شروع میں تذبذب کا شکار تھیں لیکن بعد میں وہ راضی ہوگئیں۔ گنگوبائی کی شوٹنگ انشاء￿ اللہ بند ہونے کے ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہوئی۔ خوبصورت سیٹ، خوبصورت ملبوسات بنائے گئے۔ سنجے لیلا بھنسالی کا خیال ہے کہ اس طرح انھوں نے اپنے غصے کا بہترین استعمال کیا۔
انشاء اللہ کیوں نہیں بنی؟:سنجے لیلا بھنسالی نے اپنے ابتدائی دنوں میں سپر سٹار سلمان خان کے ساتھ دو فلمیں کیں— خاموشی اور ہم دل دے چکے صنم ۔اس کے بعد سلمان خان اور سنجے لیلا بھنسالی کے تعلقات میں دوریاں پیدا ہوگئیں۔ تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہدایت کار اور اداکار کی جوڑی فلم ’انشائاللہ‘ میں واپس آنے والی تھی لیکن فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بند کر دی گئی۔سنجے لیلا بھنسالی سے جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو وہ کہتے ہیں کہ معاملہ نہ چل سکا تو اس پر کیا بات کریں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جب بننا ہی نہیں ہوتا تو نہیں بنتا، باجی راؤ مستانی اس وقت نہیں بنی جب سلمان تھے، ایشوریہ تھی، کرینہ تھی، اگر فلم کی قسمت نہیں ہے تو یہ اس وقت نہیں بنی، یہ اس فلم کا مقدر تھا، یہ گنگوبائی کی روح تھی جس نے کہا کہ اسے بنائیں، مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں فلم بند کرنے کے بعد آگے کیسے گیا، محبوب سٹوڈیو میں سیٹ بنا تھا، عالیہ گانے پر ڈانس کی ریہرسل کر چکی تھیں، لائٹنگ کی گئی تھی، پھر میرے منہ سے نکلا کہ بند کرو مجھے یہ نہیں کرنا۔ سنجے لیلا بھنسالی کا خیال ہے کہ تقدیر میں جو لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ جیسے کہ رنویر اور دیپیکا کی قسمت باجی راؤ مستانی کے لیے تھی، وہ دونوں اس وقت سکول میں تھے جب انھوں نے اس فلم کا اعلان کیا تھا۔
فلم میں گنگو بائی، رمنک اور عریاں مناظر:اپنی فلموں کے ذریعے ناظرین کو ایک الگ دنیا میں لے جانے والے سنجے لیلا بھنسالی نے مصنف حسین زیدی کی کتاب مافیا کوئین سے گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی کہانی لی ہے۔ انھوں نے کتاب سے گنگوبائی اور اس کے دھوکے باز شوہر رامنک کی کہانی میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔اس تبدیلی پر تبصرہ کرتے ہوئے سنجے لیلا بھنسالی کہتے ہیں: میں رامنک اور گنگوبائی کے رشتے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں ان کے نام کی شادی، قریبی رشتہ، ریپ سین نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ یہ سب دکھا کر میں سامعین کو بے چین نہیں کرنا چاہتا۔ میں گنگوبائی کی روح کو دوبارہ پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں عریانیت نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ اس لیے رامنک کو ایک دھوکے باز عاشق کے طور پر پیش کیا۔ سنجے لیلا بھنسالی کے مطابق رامنک فلم کا سب سے نفرت انگیز کردار ہے جسے انسانیت کو نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ایسے لوگوں کے لیے زمین پر کوئی جگہ نہیں ہے جو معصوم زندگیوں کو برباد کرتے ہیں۔
ابھی تک وہ مقام حاصل نہیں کیا:سنجے لیلا بھنسالی کی فلموں میں موسیقی کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ وہ اپنی فلموں کی موسیقی خود ترتیب دیتے ہیں۔ آج کے بدلتے وقت میں جہاں فلموں میں گیتوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے وہیں سنجے لیلا بھنسالی کا کہنا ہے کہ ان کی فلموں میں گیتوں کا نہ ہونا مشکل ہے۔بھنسالی کا کہنا ہے کہ آج کی نسل ایرانی فلموں، کورین فلموں اور مغربی فلموں سے بہت زیادہ متاثر ہے، جہاں فلموں میں گانوں کو جگہ نہیں ملتی، لیکن یہی چیز بالی وڈ فلموں کو ان سے ممتاز کرتی ہے۔وہ مزید کہتے ہیں: ہندوستان میں ہر چیز کے لیے ایک گیت ہوتا ہے۔ گانے اور موسیقی ہمارے ہندوستانی سنیما کی میراث ہیں۔ بڑے بڑے ہدایت کار راج کپور صاحب، محبوب خان صاحب، نوشاد صاحب اور شنکر جیکشن ان کے کام کا کوئی مول نہیں ہے، کیا ہم انھیں مٹا دیں؟ میری فلموں میں گانے ہوں گے۔ مجھے گانے بہت پسند ہیں۔ موسیقی کی اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہوئے سنجے لیلا بھنسالی نے کہا: میں فلم کا آغاز ہی ایک گیت سے کرتا ہوں۔ گنگو بائی لکھتے وقت میرے ذہن میں جھوم رے گوری گانا آگیا تھا۔ فلم وہیں سے شروع ہوئی، اسے کیسے چھوڑ دوں؟ میں راج کپور، وجے آنند، کے آصف، گرو دت جیسے گانے شوٹ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے بہت اچھے اچھے گانے شوٹ کیے ہیں لیکن میں وہ مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں جو ان ہدایت کاروں نے حاصل کیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: میں ایسا کام ڈھونڈ رہا ہوں جیسے میری جان کی شوٹنگ ایک کار میں ہوئی تھی، گرو دت صاحب پورا گیت ایک بستر پر شوٹ کر لیتے تھے، جیسے وجے آنند صاحب دل کا بھنور ایک سیڑھی پر شوٹ کر لیتے تھے۔ وہ جینیئس لوگ تھے۔ جب تک میں مغل اعظم کے پیار کیا تو ڈرنا کیا جیسے گانے کی شوٹنگ نہیں کروں گا، میں گانا شوٹ کرتا رہوں گا۔
خواتین کو سلام:سنجے لیلا بھنسالی کی فلموں میں خواتین کے کردار بہت مضبوط ہوتے ہیں۔بھنسالی کہتے ہیں: خواتین خدا کی نمائندگی کرتی ہیں کیونکہ وہ زندگی دیتی ہیں۔ہر بڑے ڈائریکٹر کی کہانیوں میں خواتین کے بڑے کردار ہوتے ہیں۔ چونکہ بمل رائے، ستیہ جیت رے، راج کپور، ریتک گھٹک جیسے لوگوں نے انھیں متاثر کیا ہے، وہ اپنے اظہار کے وسیلے سے خواتیں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں۔

Related Articles