سعودی مشترکہ فلاح وبہبود کے لیے ویڑن 2030 کے تحت متحد ہیں:شہزادی ریما

واشنگٹن/ریاض ،مارچ۔امریکامیں سعودی عرب کی سفیرشہزادی ریما بنت بندرنے میامی میں ایف آئی آئی ترجیحی سربراہ اجلاس میں ایک پینل میں مملکت کے ویڑن 2030 کے مربوط اورجامع اثرات پرروشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مملکت کی حکمت عملی نے آج نجی شعبے میں نوجوانوں کوکامیابی سے آگے بڑھایا ہے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ خود کو اجتماعی طورپردیکھیں اور اس بات کو تسلیم کریں کہ ان کے عزائم دوسروں کی فلاح وبہبود میں کیاکردار اداکرسکتے ہیں۔شہزادی ریما21 ویں صدی کے سب سے بڑے بحران زندگی کے بارے میں داپیپلزباٹم لائن کے عنوان سے پینل میں گفتگوکررہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ نوجوانوں کی کامیابی دیکھ رہے ہیں،وہ نہ صرف سرکاری شعبے میں داخل ہو رہے ہیں بلکہ نجی شعبے میں بھی شامل ہورہے ہیں۔آج ہر ایک نوجوان ہمارے ملک کو ترقی دینے کے اس ویڑن میں اپنا کردار جانتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ویڑن 2030 فرد کو اجتماع کا حصہ بننے کا موقع مہیاکررہا ہے اوراس بات کو تسلیم کررہا ہے کہ ہر ٹکڑے، ہرقدم، کام،عزائم نے دوسروں کی اجتماعی فلاح وبہبود میں اضافہ کیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں ایک قوم کے طور پرآگے بڑھا رہی ہے‘‘۔سفیر نے دونوں اصناف مردوخواتین کے لیے مساوی مواقع کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سعودی آبادی کا 70 فی صد حصہ 35 سال سے کم عمر ہے اور مرد اور خواتین کی تقسیم قریباً مساوی ہے۔ ویڑن 2030 نے مہمان نوازی، سیاحت اور کھیلوں جیسے شعبوں میں تعلیم وتربیت اورملازمتوں کے مواقع پیداکیے ہیں۔ان شعبوں میں 30 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے پر 10 کروڑڈالر سے زیادہ خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ مواقع افراد اور ان کے خاندانوں کی ترقی میں ممدومعاون ہیں اورایک بہتر معاشرے کو فروغ دیتے ہیں۔شہزادی ریما نے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں سے انٹرپری نیورشپ کی طرف منتقلی کے بارے میں امید کا اظہار کیااورکہا کہ ان میں سے 58 فی صد اب مؤخرالذکریعنی ذاتی کاروباروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔وہ اسے اس بات کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ یہ نظام نوجوان سعودیوں کی اْمنگوں کی حمایت کررہا ہے اورانھیں مملکت کی ترقی میں حصہ ڈالنے اور مشترکہ فلاح و بہبود کے لیے اپنی اجتماعی شناخت کو اپنانے کی ترغیب دے رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر آپ پانچ سال پہلے سعودی عرب آئے تھے تواس وقت ایک بھی نوجوان ملازمت کے سرکاری ماحول سے باہر نکل کر انٹرپری نیورشپ کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا لیکن آج ہمارے 58 فی صد نوجوان کاروباری سرگرمیوں کی خواہش رکھتے ہیں نہ کہ سرکاری ملازمت کی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روایتی، محفوظ آمدنی سے باہرنکلنے کے لیے تیار ہیں اورنظام ان کی حمایت کررہا ہے اور چلا رہا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ آج مملکت میں رہنے کے بارے میں حوصلہ افزا ہے۔

Related Articles