سعودی عرب میں خواتین کی ’پول ڈانس‘ میں بڑھتی دلچسپی
ریاض،اکتوبر۔قدامت پسند تصور کیے جانے والے اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب میں جہاں گزشتہ چند سال سے خواتین کو نمایاں آزادیاں دی گئی ہیں، وہیں اب وہاں کی خواتین سیکولر ممالک میں بھی معیوب سمجھے جانے والے ’پول ڈانس‘ میں دلچسپی لیتی دکھائی دیتی ہیں۔’پول ڈانس‘ ایک خاص طرح کا ڈانس ہے جو مغربی دنیا یا پھر ہولی وڈ فلموں میں نامناسب انداز میں دکھایا جاتا ہے، تاہم فلموں میں دکھایا جانے والا ڈانس چند ممالک میں حقیقی ہونے والے ڈانس سے مطابقت نہیں رکھتا۔اگرچہ ’پول ڈانس‘ کو زیادہ تر سیکولر ممالک میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، تاہم اس سعودی عرب جیسے ممالک میں بھی اس کے کلب کھل گئے ہیں اور نوجوان لڑکیاں اس میں دلسچپی لیتی دکھائی دیتی ہیں۔خبر وںکے مطابق چند سال قبل سعودی عرب میں یوگا کی تربیت لینے اور دینے کو بھی معیوب سمجھاتا جاتا تھا اور ایسا کرنے والی خواتین کو نہ صرف اہل خانہ بلکہ حکام کی طرح سے بھی روکا جاتا تھا۔لیکن اب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سمیت دیگر شہروں میں ’پول ڈانس‘ کلب کھل چکیہیں، جہاں پر پرفارمنس کرنے والی اگرچہ زیادہ تر غیر ملکی خواتین ہیں مگر وہاں تربیت کے لیے سعودی عرب کی نوجوان لڑکیاں آنے لگی ہیں۔رپورٹ میں ریاض میں ’پول ڈانس کلب‘ چلانے والی میا الیوسف کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سعودی عرب کی نوجوان لڑکیاں اس جانب زیادہ راغب ہو رہی ہیں۔میا الیوسف کے مطابق چوں کہ بظاہر ’پول ڈانسنگ‘ ایک نئی اور دلچسپ چیز ہے، جس میں جسمانی تحرک اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے نوجوان لڑکیاں اس کی جانب راغب ہو رہی ہیں اور وہ اسے آزمانے کی جستجو کرتی دکھائی دیتی ہیں۔سعودی عرب مین چلنے والے ‘پول ڈانس کلب‘ میں فلموں میں دکھائے جانے والے ڈانس کی طرح رقص نہیں ہوتا، یہاں پرفارمنس کرنے والی خواتین مکمل لباس میں ہوتی ہیں اور یہ کلب صرف خواتین کے لیے ہی ہیں، ان میں مخالف جنس کے افراد کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ڈانس کرنے والی خواتین کو شراب نوشی یا دیگر قسم کا نشہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔اسلامی ملک میں ’پول ڈانس کلب‘ کو خواتین کی فٹنس کلب کی طرح چلایا جا رہا ہے، جہاں نوجوان لڑکیاں آکر خود کو نہ صرف فٹ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ وہ مختلف طرح کی ایکسرسائز کرکے خود کو منفرد کرنے کی کوشش بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔خبروں کے مطابق ماضی میں ’پول ڈانس کلب‘ میں پرفارمنس کرنے والی مقامی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں وہاں ڈانس کرنے پر کوئی شرمساری نہیں بلکہ انہیں ایسا کرکے اچھا محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ سخت جسمانی مشقت کی وجہ سے پول ڈانس سے دور ہوئیں۔ان کے مطابق ان کا خیال تھا کہ ’پول ڈانس‘ میں بھی عام رقص کی طرح ہی توانائی استعمال کرنی پڑتی ہوگی مگر ان کے اندازوں کے برعکس اس رقص میں بے تحاشا توانائی اور جسمانی اور نسوانی محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہی وہ ڈانس کلب سے دور ہوئیں مگر انہیں ’پول کلب‘ کا حصہ بننے پر کوئی شرمندگی نہیں۔اگرچہ یہ اعداد و شمار دستیاب نہیں کہ سعودی عرب میں اس وقت کتنے ’پول ڈانس کلب‘ موجود ہیں، تاہم ممکنہ طور پر یہ ریاض اور جدہ کے علاوہ بھی دیگر چند شہروں میں موجود ہو سکتے ہیں اور ان کی تعداد نصف درجن تک ہوسکتی ہے، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔