زچگی کے دوران جسمانی کٹاؤ
’نہیں جانتی تھی زچگی میں میرا جسم اتنا زیادہ بھی کٹ سکتا ہے‘
لندن،ستمبر۔اپنے پہلے بچے کو جنم دینے کے تکلیف دہ تجرنے نے کیلی ایڈم کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔سنہ 2017 میں ہونے والی زچگی نے تین مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی سابق ایتھلیٹ کیلی ایڈم کو ’پی ٹی ایس ڈی‘ یعنی پوسٹ ٹرماٹک سٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا کر دیا۔ پی ٹی ایس ڈی سے مراد ایسا نفسیاتی اثر ہے جو ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے کسی تکلیف دہ واقعے کا تجربہ یا مشاہدہ کیا ہو۔کیلی اب 25 برس کی ہیں۔ دوران زچگی اْن کے جسمانی اعضا کو پہنچنے والا نقصان (کٹاؤ) اتنا شدید تھا کہ اس کا پھیلاؤ اْن کی آنت تک پہنچ گیا تھا۔ان کا کہنا ہے ’مجھے اپنے زخموں کی وجہ سے کولوسٹمی بیگ (ایسا بیگ جو جسم سے منسلک ہوتا ہے اور اس میں جسم سے نکلنے والا فاسد مواد جمع ہوتا ہے) کے ساتھ زندگی گزرانا سیکھنا پڑا۔‘انھں نے زچگی سے قبل رہنمائی کی کلاسز لی تھیں تاہم وہ نہیں جانتی تھیں کہ دوران زچگی جسم میں ہونے والا کٹاؤ اس حد تک شدید ہو سکتا ہے ،اور انھیں اس وقت جتنے جذباتی سہارے کی ضرورت تھی وہ بھی انھیں دستیاب نہیں تھا۔کیلی کہتی ہیں ’میں تین کھیلوں کی ایتھلیٹ تھی اور برطانیہ کی نمائندگی کرتی تھی۔‘’میں 2014 میں ورلڈ چیمپیئن شپس میں آٹھویں نمبر پر آئی تھی اور سنہ 2015 میں یورپ میں دوسرے نمبر پر آئی۔‘’لوگ سمجھتے تھے چونکہ میں ایک ایتھلیٹ ہوں اس لیے زچگی کے عمل سے گزرنا میرے لیے بہت آسان ہو گا۔۔۔ جب میں حاملہ تھی تو مجھے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘رائل کالج آف آبسٹریٹیشن اینڈ گائناکالوجسٹس کی نائب صدر ڈاکٹر رانی ٹھکر زچگی سے قبل کی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ وہ 16 زچگی کے مراکز، جہاں یہ رہنمائی فراہم کی گئی، وہاں اب زچگی کے نتیجے میں ہونے والے شدید جسمانی کٹاؤ کے واقعات میں بیس فیصد تک کمی آئی ہے۔وہ کہتی ہیں ’میں نے ایسی خواتین کو دیکھا ہے جن کا جسم تھرڈ یا فورتھ ڈگری تک کٹ گیا اور سب کی کہانی میں یکساں بات یہ تھی کہ انھیں زچگی سے قبل اس بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے نفسیاتی اثر کو جانچنا بہت مشکل ہے۔ اس سے متاثرہ خواتین ہسپتال گئیں، اْن کا معائنہ ہوا، انھوں نے کام سے چھٹی کی، انھوں نے پیڈز پہنے، اپنی علامات کو کم کرنے کے لیے دوائیں استمعال کیں لیکن ان میں سے کسی چیز کو جانچا نہیں گیا۔‘کیلی نے واٹر برتھ کی منصوبہ بندی کی لیکن جب اس مقصد کے لیے نیم گرم پانی کے پول میں زچگی کا آعاز ہوا تو وہ بہت زیادہ تکلیف میں تھیں۔’مجھے ایپیڈیورل انجیکشن دیا گیا اور اس کی وجہ سے میں پانی میں بچے کو جنم نہیں دے سکتی تھی۔ میں ہسپتال میں تھی، اتوار کی رات درد آ جا رہے تھے، میرا بیٹا منگل کی صبح تک پیدا نہیں ہو سکا تھا۔‘’انھوں نے فورسیپ کا استعمال کیا۔ اس (نومولود) کا وزن آٹھ پونڈز سے کچھ کم تھا۔ پیدائش کے بعد مجھے سیدھا آپریشن تھیٹر لے جایا گیا کیونکہ میرا جسم کٹ گیا تھا۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ میں مستقبل میں کبھی قدرتی طریقے سے بچہ پیدا نہیں کر سکوں گی۔‘انھوں نے مزید بتایا ’میرے بیٹے کی پیدائش کے دو ہفتے بعد میں بہت شدید انفیکشن کی وجہ سے پھر سے ہسپتال میں تھی۔‘’میں گھر لوٹ آئی لیکن دو ہفتے بعد سیپس (جسم کے گلنے کی شکایت) کے ساتھ دوبارہ ہسپتال جانا پڑا اور یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب گھر میں ایک نومولود موجود تھا۔‘اس سب نے ان کے بیٹے اور ان کے درمیان انسیت پیدا ہونے کے عمل کو بھی مشکل بنا دیا۔وہ کہتی ہیں ’میں بہت عرصے تک ٹھیک محسوس نہیں کر پائی۔ ہسپتال میں گزرے وقت کے دوران میرا بچہ میرے ساتھ تھا لیکن اسے کچھ وقت کے لیے گھر بھیجا جاتا تاکہ میں کچھ دیر سو سکوں اور جلد صحتیاب ہو سکوں۔‘’ان چند ابتدائی مہینوں میں اپنے بیٹے سے دور ہونا کافی مشکل کام تھا۔‘
پیرینیئل کٹاؤ
زچگی کے دوران جسم کے کٹاؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب:
ماں کی عمر زیادہ ہو
بچہ حجم میں بڑا ہو
بچہ فورسپ سے پیدا کیا جائے (فورسپ آپریشن کے لیے ایک آلہ ہے، جس میں دو مخالف بلیڈ لگے ہوتے ہیں)
بچے کا سر غلط رْخ پر مڑا ہو
بچے کے کندھے پیدائش کے دوران پھنس جائیں
بیٹے کی پیدائش کے دو سال بعد کیلی کے دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی اور اس مرتبہ ان کی بیٹی ہوئی۔ چونکہ ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ وہ قدرتی طور پر بچہ پیدا نہیں کر سکتیں اس لیے وہ آپریشن کے لیے تیار تھیں۔لیکن وہ ایک مرتبہ پھر بیمار پڑ گئیں۔’مجھ میں اب بھی پہلے جیسی علامات ظاہر ہو رہی تھیں اور یہ پہلے سے بھی بدتر ہوتی جا رہی تھیں۔‘’میرا پاخانہ سامنے سے لیک ہو کر آ رہا تھا اور مجھے مسلسل انفیکشن تھا۔‘’میں مسلسل کئی ہسپتالوں میں رہی۔ پھر ستمبر 2020 میں ڈاکٹرز نے کہا مجھے کولوسٹومی بیگ کی ضرورت ہو گی۔‘’میں نہیں جانتی میں کتنے عرصے تک اسے استعمال کروں گی۔۔۔ شاید ہمیشہ ہی۔‘آگہی پیدا کریں:۔کیلی کا کہنا ہے کہ زچگی سے ہونے والے صدمے سے متعلق بہت کم معلومات موجود ہیں، اس لیے انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مدد تلاش کی۔’مجھے آن لائن کچھ اور لوگ ملے اور میرا خیال ہے کہ زچگی کے صدمے اور جسم کا چاک ہونا عام ہیں لیکن لوگ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوفزدہ ہیں۔‘’فیس بک کے ایک گروپ نے میری بہت مدد کی۔ مجھے ایسی خواتین کے بارے میں معلومات ملیں جو میرے جیسے حالات سے گزری تھیں۔‘’میں اس بارے میں آگہی پیدا کرنا چاہتی تھی کہ کس طرح بعض دفعہ زچگی کا عمل پی ٹی ایس ڈی کا باعث بنتا ہے جو کہ مجھے خود بھی ہوا۔ حتیٰ کہ اب بھی میری ذہنی صحت ویسی نہیں جیسی پہلے تھی۔ میں راتوں کو پسینے میں شرابور اٹھتی ہوں اور مجھے روزانہ زچگی کے لمحات یاد آتے ہیں۔‘اس تلخ تجربے کے باعث کیلی نے مڈ وائف (دائی) بننے کی تعلیم حاصل کی لیکن ان کی تعلیم کے دوران سٹاف نے محسوس کیا کہ کچھ غلط ہے۔’میری یونیورسٹی نے مجھے کونسلنگ کے لیے کہا کیونکہ انھیں دکھائی دے رہا تھا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے میں کس قدر متاثر ہوئی تھی۔ مجھے ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے زیادہ شدت کی تھراپی دی گئی۔ یہ ایسا تھا جس کی پیشکش زیادہ تر نہیں کی جاتی۔‘کیلی کا کہنا ہے کہ حمل سے منسلک تمام افراد جس میں طبی عملہ اور کونسلرز بھی شامل ہیں، انھیں اس ساری صورتحال سے آگاہ ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ خواتین کو کیسے سہارا دینا ہے۔ان کا کہنا تھا ’اس بارے میں اور اس کے خواتین کی صحت پر اثرات کے بارے میں مزید تعلیم دیے جانے کی ضرورت ہے اور زچگی کے بعد کے معائنے اور کونسلنگ بھی میسر ہونی چاہیے۔‘’اگرچہ ہر زچگی میں جسم کا چاک ہونا خطرناک صدمے کی حد تک نہیں جاتا لیکن اس عمل میں کثیر شعبوں پر مشتمل ٹیم کا شامل ہونا ضروری ہے تاکہ خطرے سے دوچار خواتین کی مدد کی جا سکے۔ خواتین کو اس دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی جس کی انھیں ضرورت ہے۔‘’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے تو ڈاکٹرز کو یہ مت کہنے دیں کہ ایسا کچھ نہیں۔ اگر آپ کو ایسا لگ رہا ہے تو صرف اس بارے میں سوچتے ہی نہ رہیں۔‘اینا سیلیمنٹس دوران زچگی جسم کے کٹنے پر کام کرنے والے ایک فلاحی ادارے کی اہلکار ہیں اور خود بھی تیسرے بچے کی پیدائش کے دوران انھیں جسم چاک ہونے کی فورتھ ڈگری کا سامنا کرنا پڑا۔’میں خوش قمست تھی کہ میں جلد علاج کے راستے پر تھی۔‘’تھراپی نے بھی میری مدد کی۔ میں باہر نہ جانے کے لیے بہانے بنایا کرتی تھی۔ میرا پیشاب بے قابو ہو رہا تھا، میں نے اپنے دوست کھو دیے لیکن مجھے اپنے اصل دوستوں کی بھی پہچان ہوئی۔‘’میری نرس نے ہسپتال میں میرے لیے سپورٹ گروپ بنایا اور میں نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو میرے جیسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔ یہاں سے ہی مجھے فلاحی ادارے میسک ( MASIC)کے بارے میں پتا چلا۔’میں دوسری خواتین کی آواز بننا چاہتی تھی جن کو میرے جیسی صورتحال اور علاج کا سامنا کرنا پڑا۔‘’ایک عورت کی مدد کے لیے آپ کو کثیر انضباطی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایسے سرجن، فزیو تھراپسٹ اور ماہر نفسیات کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ متاثرہ خاتون کو بہترین علاج مہیا کیا جائے۔‘اب جب کیلی کا جسم صحت یابی کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ ایک نئے منصوبے کا سامنا کرنے کا ادارہ رکھتی ہیں اور آئندہ برس کمبریہ کی جھیل میں تیراکی کرنا چاہتی ہیں۔وہ کہتی ہیں ’یہ سفر میری زندگی کے سب پہلوؤں پر اثر انداز ہوا اور میرے خیال میں اس بارے میں آگاہی دے کر میں ان خواتین کی مدد کر سکتی ہوں جنھیں میرے جیسے تجربے کا سامنا کرنا پڑا۔‘