زراعت میں نوجوانوں کی شرکت کم: مودی
نئی دہلی، فروری۔زراعت کے شعبے میں نوجوانوں کی کم شرکت اور پرائیویٹ سیکٹر کے اختراعات اور سرمایہ کاری سے دور رہنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اس کے لیے بجٹ میں کئی اعلانات کیے گئے ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔زراعت اور کوآپریٹیو پر پوسٹ بجٹ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ نوجوان زراعت کی اہمیت کو جانتے ہیں، پھر بھی اس شعبے میں ان کی شرکت کم ہے۔ نجی شعبہ زراعت میں جدت اور سرمایہ کاری سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے جبکہ زرعی ٹیکنالوجی میں اختراعات اور سرمایہ کاری کے بے پناہ امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں بہت سے اعلانات کیے گئے ہیں اور اس میں اوپن سورس پلیٹ فارم کو فروغ دیا گیا ہے۔ لاجسٹک کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور بڑے بازاروں تک رسائی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ نوجوان صحیح مشورہ صحیح شخص تک پہنچا سکتے ہیں۔ پرائیویٹ انوویشن اور سرمایہ کاری اس شعبے سے دوری بنائے ہوئے ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے اس سال کے بجٹ میں کئی اعلانات کیے گئے ہیں۔ جس طرح میڈیکل سیکٹر میں لیب کام کرتی ہیں، اسی طرح پرائیویٹ سوائل ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی جا سکتی ہیں۔ نوجوان اپنی اختراع سے حکومت اور کسان کے درمیان معلومات کا پل بن سکتے ہیں۔ وہ بتا سکتے ہیں کہ کون سی فصل زیادہ منافع دے سکتی ہے۔ وہ فصل کا اندازہ لگانے کے لیے ڈرون کا استعمال کر سکتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ آزادی کے بعد ہمارا زرعی شعبہ طویل عرصے تک قلت کے دباؤ میں رہا۔ ہم اپنی خوراک کی حفاظت کے لیے دنیا پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن ہمارے کسانوں نے نہ صرف ہمیں خود انحصار بنایا بلکہ ان کی وجہ سے آج ہم ایکسپورٹ کرنے کے قابل بھی ہیں۔ آج ہندوستان کئی قسم کی زرعی مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ کسانوں کی ملکی اور بین الاقوامی بازاروں تک رسائی کو آسان بنایا گیا ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ خود انحصاری ہو یا برآمدات، ہمارا ہدف صرف چاول اور گندم تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر 2021-22 میں دالوں کی درآمد پر 17 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔ ویلیو ایڈڈ فوڈ پروڈکٹس کی درآمد پر 25 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اسی طرح 2021-22 میں خوردنی تیل کی درآمد پر ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ صرف ان چیزوں کی درآمد پر تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم ہمارے کسانوں تک پہنچ سکتی ہے، اگر ہم ان زرعی مصنوعات میں بھی خود کفیل ہو جائیں۔مسٹر مودی نے کہا کہ سال 2014 میں زراعت کا بجٹ 25 ہزار کروڑ روپے سے بھی کم تھا۔ آج ملک کا زرعی بجٹ بڑھ کر ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہو گیا ہے، دالوں کی پیداوار کو فروغ دیا گیا ہے، فوڈ پروسیسنگ والے فوڈ پارکس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خوردنی تیل کے معاملے میں مکمل طور پر خود کفیل بننے کے لیے مشن موڈ میں کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی پہل پر اس سال کو بین الاقوامی ملیٹ سال کے طور پر اعلان دیا گیا ہے۔ ملیٹ کو بین الاقوامی سطح پر پہچان ملنے کا مطلب ہے کہ ہمارے چھوٹے کسانوں کے لیے عالمی منڈی تیار ہو رہی ہے۔ ملک نے اب اس بجٹ میں ہی موٹے اناج کو ‘شری ان’ کی شناخت دی ہے۔ آج جس طرح سے شری ان کو فروغ دیا جا رہا ہے، ہمارے چھوٹے کسان اس سے بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ اس شعبے میں اس طرح کے اسٹارٹ اپس کے بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں جس سے کسانوں کے لیے عالمی مارکٹ تک رسائی آسان ہو جائے گی۔کوآپریٹو سیکٹر کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ ملک کے کوآپریٹو سیکٹر میں ایک نیا انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ اب تک یہ کچھ ریاستوں اور ملک کے کچھ خطوں تک محدود ہے۔ لیکن اب اسے پورے ملک تک پھیلایا جا رہا ہے۔ اس بجٹ میں کوآپریٹو سیکٹر پر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ کوآپریٹو سیکٹر میں ہمیشہ سے یہ احساس رہا ہے کہ دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ ناانصافی بھی اس بجٹ میں ختم کر دی گئی ہے۔ ایک اہم فیصلے کے تحت شوگر کوآپریٹو کی جانب سے 2016-17 سے پہلے کی گئی ادائیگی پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سے شوگر کوآپریٹیو کو 10,000 کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ڈیری اور ماہی پروری سے متعلق کوآپریٹیو سے چھوٹے کسانوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ خاص طور پر ماہی گیری میں کسانوں کے لیے بڑے مواقع ہیں۔ گزشتہ 8-9 سالوں میں ملک میں مچھلی کی پیداوار میں تقریباً 70 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے پہلے، پیداوار میں اتنا اضافہ کرنے میں تقریباً تیس سال لگ گئے تھے۔ اس بجٹ میں پی ایم متسیا سمپدا یوجنا کے تحت چھ ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ایک نئے سب کمپونینٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔مسٹر مودی نے کہا کہ قدرتی کھیتی کو فروغ دینے اور کیمیکل پر مبنی کھیتی کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ پی ایم پرنام یوجنا اور گوبردھن یوجنا اس سمت میں بہت مددگار ثابت ہوں گی۔ ہم سب ایک ٹیم کے طور پر ان تمام موضوعات کو آگے بڑھائیں گے۔