حکومتی اقدامات کے باعث فی خاندان کو 3 ہزار پونڈ اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، معاشی ماہرین، بجٹ پر ردعمل

راچڈیل،اکتوبر۔برطانوی چانسلر رشی سنک کی طرف سے گزشتہ روز پیش کیے جانیوالے بجٹ کے خلاف بھر پور رد عمل آناشروع ہو گیا ہے۔ معاشی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ کے دوران حالیہ بجٹ کی رو سے فی خاندان کو 3ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ تھنک ٹینک ریزولیشن فائونڈیشن نے متنبہ کیا ہے کہ نئے بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے کے بعدہر گھرانے پر بوجھ میں اضافہ ہوگا اور اس طرح بورس جانسن کے برسراقتدار کے بعد سے ہر گھرانہ سالانہ 3,000 پونڈسالانہ کے اضافی بوجھ تلے دب جائے گا۔ تھنک ٹینک کے مطابق رشی سوناک کی اعلان کردہ پالیسیوں کے نتیجے میں غریب ترین گھرانوں میں سے 20 فیصد گھرانوں کی آمدنی میں2.8 فیصد اور متوسط طبقے کی آمدنی میں2 فیصد اضافہ ہوا ہے ،رشی سوناک نے دعویٰ کیاہے کہ ان کے پیش کردہ بجٹ میں لاکھوں کم آمدنی والے لوگوں کے ٹیکسوں میں کمی ہوگی۔بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابھی کچھ عرصہ معیشت پر دبائو رہے گا لیکن حکومت کا منصوبہ کارگر ہورہاہے اور ہم مستقبل کاسامنا زیادہ اعتماد کے ساتھ کر سکیں گے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ تنخواہوں میں اضافہ ہورہاہے ،انھوں نے کہا کہ افراط زر پر تشویش میں مبتلاہونا ان کی ذمہ داری ہے لیکن ان کے نئے مالیاتی قوانین سے ظاہر ہوگا کہ ہم کس طرح نرمی پیداکرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے بجٹ میں کورونا کے بعد کی صورت حال کو مدنظر رکھا ہے اور اس سے زیادہ تنخواہوں کی ادائیگی ،اعلیٰ مہارت اور پیداوار میں اضافے کی معیشت کو راہ ملے گی۔انھوں نے ارکان پارلیمنٹ سے کہا کہ کورونا کے دوران ٹیکسوں کے بوجھ میں کمی ہوگئی تھی اور ٹیکسوں میں1950 سیجی ڈی پی کی شرح کے مطابق اضافہ کیاجارہاہے ،انھوں نے کہا کہ میں ایسا نہیں چاہتا لیکن اس پر معذرت خواہ بھی نہیں ہوِایسا غیرمعمولی بحران کی وجہ سے ہوا ہے ،انھوں نے اگلے 3سال کے دوران اخراجات میں 150 بلین پونڈ اضافہ کرنے کااعلان کیا جس میں انگلینڈ کے اسکولوں کی مدد کیلئے2 بلین پونڈ ،این ایچ ایس میں علاج کے منتظر مریضوں کے معاملے سے نمٹنے کیلئے6بلین پونڈ اور ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کیلئے7 بلین پونڈ شامل ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ یکم دسمبر سے یونیورسل کریڈٹ "taper” کی شرح میں 8 فیصد کمی کردی جائے گی ،اس سے ورک الائونس کے تحت ہونے والی ایک پونڈ کی آمدنی میں سے63 پنس کے نقصان کے بجائے اب55 پنس کانقصان ہوگا۔ دوسری جانب اگلے سال سے قومی گزارہ اجرت میں 6.6 فیصد اضافہ کرکے اسے 9.50 پونڈ فی گھنٹہ کردیاجائے گا ،لیبر پارٹی کی شیڈو چانسلر راکیل ریوز نے اخراجات میں اضافے کے فیصلے کاخیرمقدم کیاہے تاہم کہاہے کہ بعض معاملات پر انھیں تشویش ہے ،انھوں نے تعلیم پر زیادہ خرچ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم معیشت کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں پر خرچ کرنا پڑے گا اگر ہم کورونا کی وجہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی نہیں کریں گے تومعیشت پر ایک اس کے دیرپا منفی اثرات رونما ہوں گے۔20 پونڈ فی ہفتہ اضافہ ختم کئے جانے سے یونیورسل کریڈٹ پر موجود 4.4 ملین افراد میں سے 3.2 ملین افراد بری طرح متاثر ہوں گے۔ جبکہ 1.2 ملین افراد کو سالانہ 900 پونڈ تک فائدہ ہوگا ،فائونڈیشن نے بجٹ اور اخراجات کے حوالے سے راتوں رات جو تجزیہ کیا ہے اس فیملی کی مالی حالت بری طرح متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہرہوتاہے کیونکہ افراط زر میں اضافے کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافہ بے معنی ہوجائے گا۔ فائونڈیشن کے مطابق یونیورسل کریڈٹ میں تبدیلیوں اور شراب وفیول پر ڈیوٹی ،کونسل ٹیکس اور انکم ٹیکس میں اضافے کے مشترکہ اثرات مرتب ہوں گیجبکہ نیشنل انشورنس سے غریب ترین طبقے کی آمدنی میں2.8 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔فائونڈیشن کا خیال ہے کہ اگلے سال افراط زر کی وجہ سے تنخواہوں میں کمی ہوجائے گی جس کے معنی یہ ہوں گے کہ آخری عشرہ ترقی کے اعتبار سے 1930 کے بعد کمزور ترین عشرہ ثابت ہوگا،مئی 2024 تک تنخواہوں میں2008 کے بعد حقیقی اضافہ 2.4 فیصد ہوگا جبکہ1992 سے 2008کے دوران تنخواہوں میں اضافہ کی شرح38 فیصد تھی۔ فائونڈیشن کے مسٹر بیل نے دعویٰ کیا کہ افراط زر کی شرح میں اضافے سیعام آدمی کا بجٹ بری طرح متاثر ہوگا اسی بنیاد پر یہ کہا جارہاہے کہ عام آدمی کی آمدنی اور تنخواہوں میں اگلے سال اضافہ نہیں ہوگا اور ٹیکسوں میں اضافے سے متوسط طبقے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا فسکل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پال جانسن کا کہنا کہ افراط زر کی شرح میں اضافے اور تنخواہوں میں ٹیکس کی شرح بڑھائے جانے سے تنخواہوں میں معمولی اضافہ بے معنی ہوجائے گا۔حکومتی حلقوں نے بدھ کو متنبہ کیاتھا کہ اخراجات زندگی میں گزشتہ 30 سال کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ اضافہ ہواہے۔ ریزولیوشن فائونڈیشن نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ درمیانی آمدنی والے گھرانوں کو چانسلر رشی سانک کے اعلان کردہ اخراجات کی قیمت کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی مد میں برداشت کرنا ہوگاجن اخراجات کا حالیہ بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے اس سے ریاست 1970 کی دہائی کے بعد سب سے بڑے سائز میں پھیلتی نظر آئے گی۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے اسے کنٹرول میں لانے کے لیے ایک دہائی کی اصلاحات کی تھیں۔چانسلر رشی سانککی طرف سے ہسپتالوں کیلئے نقد رقم مختص کرنا‘ اجرت9.50 پونڈ فی گھنٹہ ودیگر اعلانات پر ریزولیوشن فائونڈیشن کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو معیار زندگی کی فلیٹ ریکوری کے لیے ترتیب دے رہے ہیں۔ہائوس آف کامنز میں منظر عام پر آ نے والے اقدامات پر اپنے تجزیے میں فائونڈیشن کا کہنا ہے کہ حکومت وبائی مرض کے بعد ایک چھوٹی معیشت کے دائرے کو مربع کر رہی ہے لیکن بڑے ٹیکس میں اضافے کے ساتھ تھوڑا سا زیادہ خرچ کر نے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ فیول ڈیوٹی منجمند‘ الکوحل ڈیوٹی میں کمی ‘ ٹیکس کٹوتیوں سمیت دیگر اعلانات کے حوالے سے ماہرین معاشیات غور کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق نیشنل انشورنس اور انکم ٹیکس میں اگلے سال اپریل میں اضافہ ہوگا، کارپوریشن ٹیکس اگلے سال 19 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوجا ئے گا2026.27 تک معیشت کے ایک حصے پر ٹیکس اپنی بلند ترین سطح پر ہو سکتا ہے۔مختاط اندازے کے مطابق مستقبل قریب میں فی گھرانے پر حالیہ اقدامات سے تین ہزار پونڈ تک اضافی بوجھ پڑے گااورٹیکس سے زیادہ تر متوسط اور زیادہ آمدن والا طبقہ متاثر ہوگا۔رشی سانک نے ٹوری ایم پیز کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کی نقاب کشائی کے بعد اگلے انتخابات سے پہلے ٹیکسوں میں کمی کرنا چاہتے ہیں۔ ٹوری بیک بینچرز کی 1922 کی کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں ہر مارجنل پونڈکا استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ اخراجات میں اضافہ کرنے کی بجائے ٹیکسوں کو کم کیا جا سکے۔ وہ گزشتہ روز ٹیلی ویڑن پر انتہائی پرجوش نظر آئے جب وہ قوم کو بجٹ پر اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے تھے انہوں نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ وہ انکم ٹیکس میں کمی کریں گے مگر انہوں نے کہا کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران ٹیکسوں کا حجم زیادہ ہے جس پر میں خوش نہیں ہوں اور میں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنا چاہتا ہوں۔ انسٹی ٹیوٹ فار فسکل اسٹڈیز کے ایک ممتاز ماہر اقتصادیات پال جانسن نے کہا ہے کہ ٹیکس میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے میرے خیال میں چانسلر کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کی اونچی سطح آگے بڑھ رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور ترقی اب بھی بہت کم ہے اوسط آمدنی والے لوگ سخت متاثر ہوں گے۔

Related Articles