’جنگ زدہ یوکرین کی تعمیرِنوایک ’’کثیر سالہ منصوبہ‘‘ہوگا‘

کیف/دبئی،اپریل۔یوکرین پرروسی فوج کے حملے نے دونوں ممالک کی معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کے نتیجے میں یورپ اور باقی دنیا میں بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ان خیالات کا اظہاربین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے شعبہ تحقیق کی ڈپٹی ڈائریکٹر پیٹیا کویفابروکس نے منگل کو العربیہ ٹیلی ویڑن سیایک انٹرویو میں کیا ہے۔انھوں نے جنگ کے روس اور یوکرین کی معیشتوں پر پڑنے والے اثرات، آنے والے برسوں کے لیے بین الاقوامی تنظیم کے اندازوں اورافراط زرکی شرح میں اضافے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔
یوکرین کاغیریقینی اقتصادی مستقبل:بروکس کے مطابق یوکرین کی معیشت بے پایاں غیریقینی صورت حال سے مشروط ہے اور یقیناً ہم سب کو امید ہے کہ جنگ کا پرامن حل تلاش کرلیا جائے گا۔اس کے بعد یوکرین کی تعمیرنو کے بارے میں بات چیت کی جائے گی۔انھوں نے یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ جنگ زدہ ملک کی تعمیرنو ایک ’’کثیر سالہ منصوبہ‘‘ہوگا۔روس نے 24 فروری کو یوکرین پرحملہ کیا تھا۔وہ اس کو’’خصوصی فوجی کارروائی‘‘کا نام دیتا ہے مگر اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے،ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں جبکہ جنگ مسلسل آٹھویں ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یوکرین میں جانی نقصان بڑھتا جا رہا ہے اور اہم بنیادی ڈھانچے اور جسمانی سرمائے سمیت مجموعی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔بروکس نے کہا کہ’’جنگ کے اس مرحلے پر مستقبل میں کوئی معاشی تخمینہ لگانا اب بھی بہت مشکل ہے اور’یوکرین کی تعمیرِنوایک کثیرسالہ منصوبہ‘ بننے جا رہا ہے‘‘۔
پابندیوں کے تناظر میں روس کاغیریقینی مستقبل:جنگ میں الجھے ہوئے روس کے لیے آئی ایم ایف کے بنیادی اندازوں میں اس پرمغرب کی عاید کردہ پابندیوں میں اضافے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔بروکس نے کہا کہ یہ (پیشین گوئی) صرف یہ فرض کرتی ہے کہ پابندیاں وسیع پیمانے پراس سطح پر رہتی ہیں جس سطح پر اس وقت ہیں اور اس مفروضے کے ساتھ بھی، ہمارے پاس یورپ میں شرح نمو کی پیشین گوئی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یقیناً روسی معیشت پر اس جنگ کے اور بھی اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔یوکرین میں جنگ کے خلاف ممالک کی جانب سے عاید پابندیوں نے روس کی معیشت کونڈھال کردیا ہے۔ مغرب نے فوجی سازوسامان، ہوا بازی، پْرتعیش اشیاء ، مالیاتی اداروں اور سب سے اہم توانائی سمیت بہت سے شعبوں پر پابندیاں عاید کی ہیں۔گذشتہ سال نومبر میں جاری شدہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق توانائی کا شعبہ طویل عرصے سے روس کی نمایاں ترین صنعتوں میں سے ایک رہا ہے جو ملک کے وفاقی بجٹ ذخائر کا قریباً 40 فی صد اور2019ء سے اس کی برآمدات کا 60 فی صد تک حصہ ڈال رہا ہے۔بروکس نے بتایا کہ توانائی کی مزید پابندیوں سے روسی معیشت پر’’خاطرخواہ اثرات‘‘ مرتب ہوں گے، خاص طور پر جب اس کے ساتھ ’’برآمدات کی آمدن‘‘بھی بہت کم ہو۔ان مزید اضافے کے بغیر آئی ایم ایف روس میں حقیقی ترقی میں کمی کا منصوبہ پیش کرتا ہے لیکن بروکس نے کہا کہ ملک کے توانائی کے شعبے پر مزید پابندیاں بہت منفی انداز میں اثرانداز ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ جس نامساعد منظرنامے میں ہم پابندیوں میں اضافے پرغورکرتے ہیں اس میں توانائی کی منڈی بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اجناس کی قیمتوں اورافراط زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔2027 کے آخرتک روس کے جی ڈی پی کے لحاظ سے مجموعی نقصان 15 فی صد کے لگ بھگ ہے۔اس سے 2023 میں یورپی یونین کے رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی میں قریباً 3 فی صد تک نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
افراطِ زر، عالمی رسد میں جھٹکے:یوکرین کی جنگ اور روس پرعاید پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پررسد میں کمی کا جھٹکا لگنے سے افراط زر عالمی تشویش کا ایک سنگین سبب بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں خوراک اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے اس مسئلے میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔خاص طورپراس لیے کہ کووڈ-19 وبا کی وجہ سے جنگ سے پہلے افراط زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا جس کے عالمی معیشت پر پہلے ہی خاطرخواہ اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اجناس کی بلند قیمتوں میں رسد کے جھٹکے کے ساتھ ہم نے مزید اوپرکی طرف دباؤ دیکھا ہے، خاص طور پر جب خوراک اور توانائی کی قیمتوں کی بات آتی ہے۔ بروکس کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں میں سمجھتی ہوں کہ مرکزی بینکوں کا بنیادی کام افراط زر کے اس مسئلے سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ زیادہ قیمتوں اور پھر زیادہ اجرتوں اور افراط زر کی زیادہ توقعات کے درمیان کسی قسم کااتارچڑھاؤ نہ ہوجو پھر زیادہ قیمتوں میں واپس آ جائے۔آئی ایم ایف کی آئندہ رپورٹ میں افراطِ زرمیں اضافے کے معاملے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ خاص طور پر اجناس کی بلند قیمتوں کے ماحول میں یہ واقعی مشکل ہونے جا رہا ہے۔ہماری پیشین گوئی مارکیٹ کی قیمتوں پر مبنی ہیں، اس سال تیل کی اوسط قیمتیں 1.6 کے لگ بھگ ہونے کی ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں ایک اہم اضافہ ہے جب تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمت 69 ڈالر فی بیرل تھی۔بروکس نے یہ بھی کہا کہ ’’اب ہم اس سال عالمی نمو کو 3.6 فی صد پر پیش کررہے ہیں۔اس شرح میں یہ ایک نمایاں کمی ہے،خاص طور پراس لیے کہ چند ماہ قبل عالمی معیشت میں شرح نمو کی4.4 فی صد کی پیشین گوئی کی گئی تھی‘‘۔

Related Articles