برطانیہ پہنچنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد 23 ہزار سے بڑھ گئی،فرانس سے موثر روک تھام کا مطالبہ

راچڈیل،؍نومبر۔سمندری راستے سے کشتیوں پر سوار ہو کر رواں سال برطانیہ میں داخل ہو نے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 23ہزار500کی تاریخی شرح عبور کر گئی جبکہ ایک ہی روز میں 1185 غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا نیا ریکارڈ بھی گزشتہ دنوں قائم ہو گیا۔ برطانیہ پر تارکین وطن کی مسلسل یلغار کیباعث بیک بینچرز میں پائے جانیوالی تشویش اور غم وغصہ کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اس معاملے پر گزشتہ روز لب کشائی کرتے ہوئے فرانس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے اپنا موثر کردار نبھائے۔ گزشتہ برس مجموعی طو رپر 8ہزار404غیر قانونی تارکین وطن برطانیہ میں داخل ہوئے تھے مگر اس کے مقابلے میں اب تک 23ہزار 5سو سے تعداد تجاوز کر چکی ہے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔یو کے بارڈر فورس کے سبکدوش ہونے والے سربراہ پال لنکن نے غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوران سروس یہی نتیجہ اخذ کیاہے کہ ہم سب انسان ہیں سب ممالیہ ہیں، ہم سب چٹانیں، پودے، دریا ہیں اور سرحدوں پر ہجرت کے معاملے افسوسناک ہیں۔ فرانس کے راستے برطانیہ میں انگلش چینل عبور کر کے داخل ہونیوالے طویل اور خطرناک سفر طے کرکے ہر طرح کے خطرات کو نظر انداز کر کے پیش قدمی کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال برطانیہ میں داخل ہونیوالے تارکین وطن کی تعداد تین گنا تک بڑھ گئی ہے بہتر زندگی کی تلاش میں چھوٹی کشتیوں پر برطانیہ آ نے والا ہر شخص غیر قانونی قدم اٹھانے کے باوجود برطانیہ میں داخلے پر خود کو محفوظ تصور کررہا ہے فرانس اور برطانیہ ملکر بھی غیرقانونی تارکین وطن کی نقل وحرکت روکنے میں ناکامی کا شکار ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے پر قابو پانے کیلئے برطانیہ بھر پور کوششیں جاری رکھے ہوئے مگر اب تک کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی انگلش چینل پر غیر قانونی تارکین وطن کی روک تھام کے لیے برطانیہ نے کچھ عرصہ قبل فرانس کے ساتھ ایک مہنگا معاہدہ کیا جس میں دونوں ممالک ملکر پیٹرولنگ کے عمل کو موثر بنا ئیں گے۔ برطانیہ کی جانب سے اب صورتحال پر فرانس سے کھلے لفظوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کا پرزور مطالبہ کر رہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ فرانس غیر قانونی تارکین وطن کی روک تھام کے لیے ساحلوں پر موثر پولیسنگ نہیں کر رہا۔وزیر اعظم بورس جانسن نے اولڈ بیکسلے اور سڈکپ، جنوب مشرقی لندن میں ایک ویکسینیشن سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے فرانس سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے اپنی سرحدیں مکمل طو رپر بند کر نے کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے سینئر ترین وزراء￿ میں سے ایک وزیر داخلہ جیرالڈدرمانین نے برطانیہ پر فرانس سے پنچ بال جیسا سلوک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ ہمیں کسی بھی قسم کا سبق دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر فرانس کو کسی ڈکٹیشن کی ضر ورت نہیں ہے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ جیرا لڈدرمانین نے کہا ہے کہ برطانیہ اور فرانس غیر قانونی تارکین وطن کے بحران پر تنازعہ کا شکار ہو رہے ہیں گزشتہ ہفتے انگلش چینل عبور کرنیوالے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کے بعد فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈدرمانین نے برطانوی سیکرٹری داخلہ پریتی پٹیل کیساتھ رواں ہفتے اہم ملاقات اور بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اپنی گھریلو سیاست میں ہمیں پنچ بال کے طو رپر استعمال کرنا بند کرے۔فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈدرمانین نے برطانوی کارکنوں پر فرانسیسی پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکے کے لیبر قوانین لوگوں کو خطرناک سفر کرنے کی ترغیب دے رہے ہیںانہوں نے کہا کہ میں اپنی برطانوی ہم منصب کو یاد دلاؤں گا کہ پولیس اور جنڈرمیری کو کام کرنے سے روکنے والی این جی اوز زیادہ تر برطانوی ہیں جو فرانسیسی سرزمین پر موجود برطانوی شہریوں کے ساتھ ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ کم لاگت پر کام کرنے والے بے قاعدہ کارکنوں پر انحصار کرتا ہے اور اگر ملازمت کے قوانین کو سخت کیا گیا تو لوگ اب کیلیس یا ڈنکرک میں نہیں رہیں گے وہ برطانیہ کا سفر کرنے کا انتظار کر رہے ہیںایسے دعوے کیے گئے ہیں کہ شمالی آئرلینڈ میں ماہی گیری کے حقوق اور سرحدی قوانین پر جاری قطاروں کے درمیان کراسنگ کو روکنے کے لیے فرانسیسی عدم عملی بریگزٹ سزا کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ڈاؤننگ سٹریٹ نے کہا ہیکہ تارکین وطن کے کراسنگ کے مسئلے کو بریگزٹ جیسے دیگر مسائل کے ساتھ جوڑنا غلط ہے جرائم پیشہ گروہ اپنے مفاد کیلئے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

 

Related Articles