برطانیہ پر یلغار جاری، غیرقانونی تارکین وطن کی نقل و حرکت روکنے کیلئے فرانس کی کوششیں بھی ناکام

راچڈیل،نومبر۔ غیر قانونی تارکین وطن کی روک تھام کیلئے برطانیہ کے بعد فرانس کی کوششیں بھی دم توڑنے لگیں۔فرانسیسی پولیس کے ذریعے ڈنکرک کے مقام پر غیر قانونی تارکین وطن کے کیمپ کو ختم کرنے کے بعد تارکین وطن نے تقریبا آدھا میل دور واقع جنگل میں خیمے گارڈ کر ایک نیا کیمپ قائم کر لیا جہاں سے وہ برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی جانوں کوبھی خطرے سے دوپار کردیتے ہیں۔متروک صنعتی اراضی کے ایک علاقے میں پر ہجوم کیمپ میں تقریبا پندرہ سو کے قریب تارکین وطن نے ڈیرے جما رکھے تھے جب تک کہ اسے ڈنکرک کے قریب گرینڈ سنتھ میں پولیس نے بند نہیں کیا تھاکیمپ میں مقیم پناہ کے متلاشیوں کے لیے فرانسیسی عمل سے گزرنے کے بدلے میں کوچ کے ذریعے پورے فرانس میں پناہ گاہوں میں لے جانے کا اختیار دیا گیا تھالیکن ان میں سے اکثر نے ناہموار زندگی گزارنے کا انتخاب کیا اور اس خدشے کے پیش نظر اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ برطانیہ تک پہنچنے کے ان کے طویل مدتی مقصد میں رکاوٹ بنے گا۔نقل مکانی کرنے والوں کا چھوٹا گروپ اپنے پرانے کیمپ میں واپس آیا اور داخلی دروازے کو سیل کر کے پولیس کی طرف سے لگائی گئی باڑ کو توڑ دیا۔بڑے پیمانے پر بے دخلی کے بعد باقی رہ جانیوالے بعض تارکین وطن کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے قریب خیمہ بستی قائم کیے ہوئے ہیں جو اپنیپرانے کپڑوں‘ بستروں‘ خیموں اور برتنوں سمیت دیگر سامان کو اپنے نئے کیمپ میں منتقل کر رہے ہیں بعض نے اپنے کیمپ میں ایندھن حاصل کرنے کے لیے عارضی پناہ گاہوں سے تعمیراتی سامان کو کاٹ کر بطو رایندھن استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ بیشتر خاندان اپنے پرانے کیمپ سے معمولی دوری پر ہی دوبارہ ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں جن میں عراقی کرد ماں 46 سالہ قزل رزگر اور اس کی دو بیٹیاں 22 سالہ ہادیہ اور سات سالہ ہستہ سمیت دو بیٹے بھی شامل تھیجنہوں نے میدان کے ایک کونے میں اپنا پرانا خیمہ لگایا تھا۔تارکین وطن کی کشتی پر اٹلی پہنچنے کے بعد 16 دن قبل گرینڈ سنتھ کیمپ میں پہنچنے کے بعد سے یہ خاندان بڑی حد تک خیراتی اداروں کی طرف سے کھانے پینے کی اشیاء پر زندہ رہا ہے16سالہ مبینہ نے کیمپ کے حالات اور مشکلات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ برے ترین حالات میں محض اس لیے مقیم ہیں کیونکہ ہم انگلینڈ جانے کے متمنی ہیں جہاں ہم نوکری حاصل کرسکتے ہیں سکول جاسکتے ہیں اور آزادانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔مبین نے اعتراف کیا کہ اس کے خاندان نے انسانی سمگلروں کو یورپ پہنچنے کے لیے رقم دی تھی اوراس مقصد کیلئے انہیں اڑھائی ہزار یورو قرض اٹھانا پڑا۔ اس خاندان نے اپنے والد کو پانچ ماہ قبل عراق کے کرد زیر انتظام علاقے میں دربندیخان میں چھوڑ دیا تاکہ وہ برطانیہ جا سکیں اور نئی زندگی گزار سکیں۔مبین نے کہا کہ یہاں سردی اور بارش میں بیت الخلا اور پیسے کے بغیر رہنا مشکل ہے مگر برطانیہ پہنچنے کے بعد مشکلات کم ہو جائیں گی اور وہاں حجام کی نوکری کرنا چاہوں گا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ پہنچنے کا جنون ان دنوں عروج پر ہے فرانس کے راستے سمندر سے خطرناک سفر طے کر کے انگلش چینل عبور کر نے والے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ کوششوں اور سخت اقدامات کے باوجود رواں سال ابتک تقریبا 20ہزار سے زائد غیر قانونی تارکین وطن برطانیہ پہنچ چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہو نے والی ایک تازہ ترین ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کیلیس کے ساحل پر کشتیوں کے ذریعے سفر کرنیوالوں میں شامل بچے جوش وخروش سے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہا رکر رہے ہیں اور چینل کوعبور کرنے کیلئے انتہائی پرعزم دیکھائی دیتے ہیں۔

 

Related Articles