بائیڈن اور شی کے درمیان ورچوئل سربراہ ملاقات اس سال کے آخر میں کرانے کی تیاریاں ہیں: امریکہ
واشنگٹن،اکتوبر۔وائٹ ہاؤس نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ رواں برس کے آخر میں صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان ورچوئل سربراہ ملاقات کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔یہ اعلان سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورک میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور ان کے چینی ہم منصب یانگ جیچی کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان بائیڈن انتظامیہ کے اس مطالبے پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کہ تائیوان کے خلاف چین اپنا فوجی دباؤ کم کرے اور تجارتی معاہدوں کی پابندی کرے۔گزشتہ کچھ دنوں کے دوران چین نے 150 لڑاکا طیارے تائیوان کے فضائی دفاعی زون میں بھجوائے ہیں جس پر بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انتباہ جاری کیا گیا۔امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹںی بلنکن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین کی سرگرمی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ اس سے غلط اندازے لگائے جانے کا خدشہ ہے اور اس سے خطے کے امن اور استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔تائیوان خود کو ایک آزاد ملک خیال کرتا ہے جب کہ چین اس کو الگ ہو جانے والا اپنا صوبہ سمجھتا ہے۔ تائیوان پر چین کا دباؤ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کے دوران ایک اور فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔امریکی تھنک ٹینک دی رینڈ کارپوریشن کے ساتھ وابستہ سینئر انٹرنیشنل ڈیفنس ریسرچر ٹموتھی ہیتھ جنگ کے خطرے کو مسترد کرتے ہیں۔اْن کا کہنا ہے کہ ’’اگرچہ مجھے تشویش ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ جنگ کا خطرہ زیادہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ چینی جنگ کو ہوا دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘خیال رہے کہ امریکہ چین کی ون چائنا پالیسی کو تسلیم کرتے ہوئے تائیوان کے ساتھ بھی غیر سرکاری روابط رکھے ہوئے ہے جب کہ اس کے دفاع کے لیے بھی امریکہ تائیوان کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔چین بارہا یہ انتباہ کر چکا ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر تائیوان کا کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔ البتہ امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ تنازع پرامن انداز میں حل ہونا چاہیے۔صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ ماہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں امریکہ کی خطے سے متعلق پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک نے تائیوان معاہدے کی تعمیل پر اتفاق کیا ہے۔صدر بائیڈن کے بقول ’’ہم اتفاق کرتے ہیں اور ہم تائیوان معاہدے کی تعمیل کریں گے۔ ہم اس وقت اسی نکتے پر ہیں۔ ہم نے واضح کر دیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ (چینی صدر) اس معاہدے کی تعمیل کے علاوہ کچھ بھی اور قدم اٹھائیں گے‘‘تاہم امریکہ چین پر یہ کہتے ہوئے دباؤ بڑھاتا رہا ہے کہ بیجنگ نے جنوری 2020 کے معاہدے کی پیروی نہیں کی جس کے تحت چین نے اتفاق کیا تھا کہ وہ امریکہ سے 2021 تک دو سو ارب ڈالر کا سامان اور سروسز خریدے گا۔ انتظامیہ 350 ارب ڈالر کے چینی سامان پر ٹیرف برقرار رکھے ہوئے ہے۔امریکہ کی تجارتی نمائندہ کیتھرین ٹائے کا کہنا ہے کہ ہم امریکہ کے معاشی مفادات کا (چین کی) نقصان دہ پالیسیوں اور اقدامات سے دفاع کرنے کے لیے مکمل ٹولز رکھتے ہیں اور ہم ضرورت کے مطابق نئے ٹولز تیار کرتے ہیں۔امریکہ، انڈو پیسفک طاقتوں کے ساتھ، بشمول آسٹریلیا کے، اتحاد بھی بڑھا رہا ہے اور آسٹریلیا کو حالیہ (آکس) ڈیل کے تحت جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں کے ساتھ بھی مسلح کرنے میں مدد کر رہا ہے۔صدر بائیڈن نے گزشتہ ماہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ساتھ کواڈ کے سربراہ اجلاس کی بھی میزبانی کی تھی۔لیکن امریکہ اس ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ کا حصہ نہیں ہے جس میں جنوب مشرقی ایشیا کے 10 ممالک بشمول چین، ایک بڑے تجارتی معاہدے میں شامل ہیں۔امریکہ کمپری ہینسو اینڈ پروگریسو ایگریمنٹ فار ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ (CPTPP) کا بھی حصہ نہیں رہا۔ اوباما انتظامیہ نے اس تجارتی معاہدے کی حمایت کی تھی جب کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکہ کو اس معاہدے سے دست بردار کرا لیا تھا۔ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ابراہم ڈینمارک نے کہا ہے کہ یہ امریکہ کے لیے مشکل ہوتا جائے گا کہ وہ انڈو پیسفک علاقے میں اپنے اقتصادی فوائد برقرار رکھ سکے خاص طور پر جب چین نے حال ہی میں سی پی ٹی پی پی (CPTPP) نافذ کیا ہے۔