ایمن الظواہری کی ہلاکت کو اب بھی امریکی دعویٰ سمجھتے ہیں: ذبیح اللہ مجاہد

کابل ،اگست۔افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اْن کا کہنا تھا کہ کابل میں ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کو وہ اب بھی امریکہ کا دعویٰ سمجھتے ہیں۔وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اْن کی حکومت امریکہ اور عالمی برادری کو یقین دلاتی ہے کہ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں۔کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں جس کے بعد ہی کوئی حتمی بیان جاری کیا جائے گا۔اْن کا کہنا تھا کہ ابھی تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس میں کوئی بھی چیز واضح نہیں ہے۔ راکٹ جہاں لگا ہے، اس نے ہدف کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ لہذٰا اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور طالبان اس واقعے کو امریکی دعوے کے طور پر دیکھتے ہیں۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے 31 جولائی کو کابل میں امریکی کارروائی کے بعد خود عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا اور امریکہ کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کا ہر جگہ پر تعاقب کیا جائے گا۔خیال رہے کہ فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کے بعد امریکہ سمیت عالمی برادری نے طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔گزشتہ برس امریکہ کی جانب سے کابل ایئر پورٹ کا کنٹرول چھوڑنے کے بعد افغانستان عملاً طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا تھا اور اسی کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکہ کی 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے آنے سے قبل افغانستان میں کرپشن اور لوٹ مار کا راج تھا، لیکن طالبان کے آنے کے بعد ملک میں امن قائم ہوا ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ طالبان کے آنے سے قبل کابل کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں تھا، تاہم طالبان حکومت آنے کے بعد صورتِ حال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ راستے کھلے ہیں اور لوگ دن ہو یا رات بے خوف ہو کر سفر کرتے ہیں۔
داعش ایک چیلنج لیکن اب وہ کمزور پڑ رہی ہے :ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے باوجود ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ (داعش) ایک چیلنج ضرور ہے، لیکن کوئی بہت سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے آنے کے بعد 600 سے زائد داعش جنگجوؤں کو ہلاک کیے جانے کے علاوہ 1200 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔اْنہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان کی مؤثر کارروائیوں کے بعد داعش کمزور ہو رہی ہے اور اب وہ کبھی گرین بیلٹ یا کسی جگہ پر بارودی مواد نصب کر کے خوف و ہراس پھیلاتے ہیں۔ یہ اْن کی کمزوری کی علامت ہے, کیوں کہ ان کی رسائی دیگر اہم مقامات تک نہیں ہو سکتی۔ لہذٰا بہت جلد افغانستان سے ان کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد داعش نے اپنی کارروائیاں تیز کی ہیں، خصوصاً افغانستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
عالمی برادری ہماری حکومت کو تسلیم کرے :ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری طالبان حکومت کو تسلیم کر لے۔ اْن کا کہنا تھا کہ ایک سال کے دوران ان کے عالمی برادری کے ساتھ محض رسمی مراسم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری طالبان کی حکومت جلدازجلد تسلیم کرے۔طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک جو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ہمارے ساتھ بات کریں۔ یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کا ایک برس مکمل ہونے پر عالمی برادری کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے ایک برس گزر جانے کے باوجود طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
لڑکیوں کی تعلیم:اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے مخلوط تعلیم پر پابندی لگا دی تھی۔ ساتویں سے بارہویں جماعت اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کو مناسب انتظامات مکمل ہونے تک تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے اسکول بہت جلد کھل جائیں گے، اس حوالے سے کام جاری ہے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔اْن کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے سے قبل طالبان یہ چاہتے ہیں کہ ایسا معقول حل تلاش کیا جائے جو اسلامی تقاضوں کے مطابق اور سب کو قابلِ قبول ہو۔

Related Articles