اپنے مسلمان دوستوں کے لیے کھڑی ہوں، نا انصافی ہوتے دیکھیں تو خاموش نہ رہیں، سپر ماڈل بیلا حدید

واشنگٹن ڈی سی ،فروری۔نقوش میں توازن کے حوالے سے سپر ماڈل بیلا حدید کو دنیا کا خوبصورت ترین چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ فروری کے دوسرے ہفتے میں بیلا حدید نیو یارک فیشن ویک کے ریمپ پر سر سے پیر تک ڈھکی ہوئی ڈیزائنر پروئنزہ شولر کے تیار کردہ لباس میں چلتی نظر آئیں تو بھرپور تعریفیں سمیٹیں۔سپر ماڈل بیلا حدید نے گزشتہ دنوں اپنی ریمپ واک کی تصاویر اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ڈالیں جس پر ان کے کئی مداحوں نے انہیں حجابی بیلا اور حجابی ملکہ جیسے ناموں سے پکارا۔بعد ازاں بیلا حدید نے یکے بعد دیگرے حجاب پہننے والی خواتین کی مشکلات کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی حمایت میں کئی تصاویر ڈالیں اور اس بارے میں آگاہی پھیلانے کی کوشش کی۔بھارت میں حجاب کا معاملہ یکم جنوری 2022 کو سامنے آیا جب بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ایک کالج میں حجاب پہننے کی ممانعت پر چھ طالبات نے احتجاج کیا۔ اب یہ معاملہ ایک مکمل تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرناٹک کی ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے اس سلسلے میں داخل کی گئی درخواستوں کی سنوائی جاری ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کہلانے والے بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں کے باہر اپنی مرضی کے خلاف حجاب اتارتی طالبات اور خواتین ٹیچرز کی ویڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہونے کے بعد مودی حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔کالج انتطامیہ کا مؤقف ہے کہ کالج میں تمام طلباء کے لیے ڈریس کوڈ کی پابندی لازمی ہے جس میں حجاب شامل نہیں ہے۔بھارت ہی نہیں مغربی یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والے ملک فرانس کی پارلیمنٹ میں بھی ایک ایسا بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت حجاب پہننے والی کھلاڑی خواتین کیحجاب پہننے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔فرانس اس سے پہلے بھی خواتین کے حجاب اور نقاب پر پابندی کی خبروں کے باعث تنقید کی زدمیں رہا ہے۔ سال 2011 سے ملک میں پہلے ہی پبلک مقامات پر خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں جب بیلا نے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ فلسطینی جڑیں رکھنے والی امریکی ماڈل بیلا حدید اس سے قبل بھی بے باکی کے ساتھ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت میں پوسٹس لگاتی رہی ہیں اور اس دوران انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر مداحوں کی ناراضگی کبھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے سے نہیں روک پائی۔بیلا حدید نے اٹھارہ فروری کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں حجاب پہنے چھ خواتین مسکراتی نظر آرہی ہیں۔ اس کے ساتھ بیلا نے لکھا "گو کہ حجاب کو فیشن کی دنیا میں نت نئے طریقوں سے متعارف کرایا جا رہا ہے مگر ہمیں ان مسلمان خواتین کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہیں اسی حجاب کی وجہ سے تنقید اور مذہبی تعصب کا مستقل سامنا ہے۔”بیلا حدید کا کہنا تھا کہ ایک عورت کے جسم پر صرف خود اس کو اختیار ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے بتائے کہ اسے کیا پہننا چاہیے۔اپنی پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ وہ اپنے مسلمان دوستوں کے لیے کھڑی ہیں اگر آپ نا انصافی ہوتے دیکھتے ہیں تو خاموش مت رہیں۔ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے فرانس بھارت ، بیلجئم اور کینیڈا کے صوبے کیوبیک کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ "آپ کو دیکھنا چاہیے کہ آپ ان جسموں کے بارے میں کیسے فیصلے کررہے ہیں جو آپ کے ہیں ہی نہیں۔”بیلا حدید نے مزید لکھا کہ کسی بھی ملک کو خواتین کو یہ بتانے کا حق نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یا کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے کیا پہن سکتی ہیں خاص کر کے جب ان کی وجوہات مذہبی یا حفاظتی نوعیت کی ہوں۔حجاب سے متعلق بیلا حدید کے اس نڈر اور دو ٹوک مؤقف پر نہ صرف انہیں سوشل میڈیا پر سراہا جا رہا ہے بلکہ کئی بین الاقوامی اخبارت نے بھی اس پر سرخیاں لگائی ہیں۔حسن ابی نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے بیلا کو سراہتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے معاملات پر بیلا حدید مستقل جس بہادری کامظاہرہ کر رہی ہیں وہ ان کے درجے کی کسی بھی سیلیبرٹی میں نظر نہیں آرہا۔ یہ حیران کن بات ہے کہ وہ کیسے بہادری سے ان موضوعات پر بات کرتی ہیں جنہیں دوسرے تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں۔موئسلیاس کے نام سے ایک فرانسیسی سوشل میڈیا صارف نے بیلا کو ملکہ پکارتے ہوئے لکھا کہ اسلام سے نفرت کرنے والے میرے ملک کو گھسیٹیں۔فروہ شاہ نامی صارف نے بیلا پر ہونے والی تنقید میں ان کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ایک معروف شخصیت کا اپنے پلیٹ فارم کے ذریعیمشکلات، دوہرے معیارات اور تعصب کے بارے میں دوسروں کو بتانا جن کا مسلمانوں بالخصوص حجاب پہننے والی خواتین کو مستقل سامنا رہتا ہے کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔بیلا خواہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائیں یا حجاب کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں، تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کا حدف بھی بنتی ہیں۔کرناٹک میں حجاب کے تنازع پر ان کی سوشل میڈیا پوسٹس سے کئی صارف ناراض بھی ہیں اور یہ غیر متوقع نہیں کہ ان میں بڑی تعداد بھارت سے تعلق رکھنے والے صارفین کی ہے جو ان کی ماڈلنگ کی نیم برہنہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان کے حجاب کی حمایت پر طنز کرتے نظر آئے۔تاہم کئی صارفین نے اس کے جواب میں یہی مؤقف اپنایا کہ جب دنیا میں برہنگی کو قبولیت حاصل ہے تو پھر حجاب کو کیوں نہیں؟ آخر یہ بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔

 

 

Related Articles