انتونیو انوکی: مشہور جاپانی پہلوان وفات پا گئے، دنیائے ریسلنگ کا اظہارِ افسوس

ٹوکیو،اکتوبر۔ریسلنگ کی دنیا کے عظیم ترین پہلوانوں میں سے ایک جاپانی پروفیشنل ریسلنگ سٹار محمد حسین انوکی سنیچر کو 79 برس کی عمر میں ٹوکیو میں وفات پا گئے ہیں۔انتونیو انوکی کے نام سے مشہور پہلوان کی وفات کا اعلان ان کی کمپنی نیو جاپان پرو ریسلنگ نے ٹوئٹر پر کیا۔کمپنی نے لکھا: ‘نیو جاپان پرو ریسلنگ اپنے بانی انتونیو انوکی کی وفات پر شدید غمزدہ ہے۔ پروفیشنل ریسلنگ اور عالمی برادری میں ان کی کامیابیاں بے مثال ہیں اور کبھی بھی بھلائی نہیں جائیں گی۔’پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی ان کی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا ہے۔انوکی 60 کی دہائی میں جاپان کی پروفیشنل ریسلنگ کے سب سے بڑے ناموں میں سے ایک بن کر ابھرے تھے۔ جب 1976 میں اْنھوں نے باکسنگ لیجنڈ محمد علی کے ساتھ مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے میں حصہ لیا تو اسے ‘صدی کا سب سے بڑا مقابلہ’ قرار دیا گیا۔15 راؤنڈز تک جاری رہنے والا یہ مقابلہ برابر رہا تھا تاہم اسے جدید مکسڈ مارشل آرٹس کی بنیاد ڈالنے والا مقابلہ قرار دیا جاتا ہے۔اْنھیں دسمبر 1976 میں پاکستان کے مشہور اکرم پہلوان سے مقابلے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ مقابلہ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا اور اس میں انوکی نے اکرم پہلوان کو شکست دے دی تھی۔اس کے بعد جون 1979 میں اکرم پہلوان کے بھتیجے جھارا پہلوان اور انوکی کے درمیان لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں مقابلہ ہوا جس میں جھارا پہلوان نے انوکی کو شکست دی۔بعد میں انوکی جھارا پہلوان کے بھتیجے اور اسلم پہلوان کے پوتے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کر سکیں۔اْنھوں نے جاپانی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں سنہ 1989 میں نشست بھی جیتی اور اگلے برس وہ خلیجی جنگ کے دوران عراق گئے اور صدام حسین سے جاپانی یرغمالیوں کی رہائی کی استدعا کی جنھیں رہا کر دیا گیا۔عراق کے دورے کے دوران ہی اْنھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ پریس ٹی وی سے گفتگو میں اْنھوں نے کہا تھا کہ اْنھوں نے کربلا کی زیارت کے دوران اسلام قبول کیا۔اْن کا کہنا تھا کہ وہ کربلا کی مقدس تقریبات اور امن کے تصور سے اتنے متاثر ہوئے کہ جب اْنھیں کہا گیا کہ آپ مسلمان ہو جائیں تو وہ ہو گئے۔خبروںکے مطابق انوکی نے شمالی کوریا سے تعلق رکھنے والے اپنے اتالیق اور پروفیشنل ریسلنگ سپرسٹار ریکیڈوزان کی وجہ سے شمالی کوریا سے قریبی تعلق پیدا کر لیا تھا۔جاپانی رکنِ پارلیمان کے طور پر اْنھوں نے کئی مرتبہ شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کا دورہ کیا اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔سنہ 1995 میں اْنھوں نے پیانگ یانگ کے مے ڈے سٹیڈیم میں دو روزہ ریسلنگ مقابلہ منعقد کروایا جس میں اْنھوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای کے ریسلر رِک فلیئر کو شکست دی۔دسمبر 2012 میں اْنھوں نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں وہ اپنے ساتھ کئی جاپانی پہلوانوں کو لے کر آئے جنھوں نے لاہور اور پشاور میں ریسلنگ مقابلوں میں حصہ لیا۔اسی دورے میں اْنھوں نے لاہور میں اکرم پہلوان اور جھارا پہلوان کی قبروں پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی بھی کی تھی۔ان کے کئی مداح اکثر ان سے طمانچے کھانے کی فرمائش کیا کرتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ انوکی کا طمانچہ کھانے سے مقابلے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ان کی وفات پر ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (ڈبلیو ڈبلیو ای) کے چیف کنٹینٹ افسر اور دنیا کے مشہور ترین ریسلرز میں سے ایک ٹرپل ایچ نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔اْنھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ہمارے شعبے کی تاریخ کی سب سے اہم شخصیات میں سے ایک اور ‘مقابلے کے جذبہ’ کی جیتی جاگتی مثال۔ انتونیو انوکی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔مین کائنڈ کے نام سے مشہور ڈبلیو ڈبلیو ای کے ریسلر مِک فولی نے لکھا کہ اْنھیں انتونیو انوکی کی وفات کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ اْنھوں نے انوکی کو اس شعبے کی ‘قدآور شخصیت’ قرار دیا۔امریکی ریسلنگ شخصیت اور ڈبلیو ڈبلیو ای را کے سابق مینیجر ایرک بشوف نے لکھا: ‘میرے کریئر کے وہ لمحات جن کے لیے میں سب سے زیادہ شکرگزار ہوں، وہ ہمارے ساتھ کام کرنے سے پیدا ہونے والی دوستی کی بدولت ہیں۔’اْنھوں نے لکھا کہ انوکی ایک دیدہ ور شخصیت تھے اور کچھ انداز سے اپنے وقت سے کہیں آگے بھی تھے۔

 

Related Articles