امریکا نے مصری فوجی امداد منسوخ کردی
قاہرہ/واشنگٹن،جنوری۔امریکا کا کہنا ہے کہ مصر 130ملین ڈالرکی فوجی امداد کے لیے ضروری شرائط پر پورا نہیں اترسکا۔ اس ہفتے کے اوائل میں ہی امریکا اور مصر کے مابین 2.5 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کا معاہدہ طے ہوا ہے۔واشنگٹن نے جمعے کے روز مصر کو 130ملین ڈالر کی فوجی امداد منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے چند روز قبل ہی امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے منگل کے روز ہی مصر کو 2.5 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے فروخت کو منظوری دی تھی۔ ان میں 12سپر ہرکیولس سی 130 ٹرانسپورٹ طیارے اور ایئر ڈیفنس رڈار سسٹم شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کیا کہا؟:امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کے روز بتایا کہ مصر نے غیر ملکی فوجی امداد حاصل کرنے کے حوالے سے طے کردہ ضروری شرائط پوری نہیں کیں۔ یہ مالی امداد ستمبر سے ہی روک کر رکھی گئی ہے۔محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں 2.5 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے فروخت کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ ان ہتھیاروں میں فوجی ٹرانسپورٹ طیارے او ررڈار سسٹم شامل ہیں۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے مصر کو 300 ملین ڈالر کی امداد جاری کرنے کو منظوری دی تھی جب کہ مزید 130 ملین ڈالر کی رقم یہ کہتے ہوئے روک دی تھی کہ ‘انسانی حقوق کے حوالے سے بعض مخصوص معاملات‘ کوجنوری کے اواخر تک پورا کرنے کے بعد ہی بقیہ امداد جاری کی جائے گی۔محکمہ خارجہ نے کہا، ” ان شرائط پر عمل درآمد کے لیے مقررہ وقت جلد ہی ختم ہوجائے گا۔”بیان میں مزید کہا گیا ہے، "مصری حکومت نے معاملات میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے لیکن آج کی تاریخ تک تمام معاملات کو حل نہیں کیا گیا۔ اس لیے وزیر خارجہ 30 جنوری کے بعد 130ملین ڈالر کو دیگر قومی سیکورٹی ترجیحات کے پروگراموں پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔خبروں کے مطابق فوجی امداد کو روک دینا اور ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے کا ایک دوسرے سے تعلق نہیں ہے۔
‘یہ ایک ہلکی چپت لگانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے’:ہیومن رائٹس واچ کی واشنگٹن ڈائریکٹر سارہ ہولیونسکی نے فوجی امداد کو روک دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم ہتھیاروں کی فروخت پر مایوسی کا اظہار۔ہولیونسکی نے فوجی امداد کو روک دینے کے حوالے سے کہا، "یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ مصر کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے امریکی حکومت کے ساتھ مصالحت کا کوئی موقع نہیں رہ گیا تھا۔”انہوں نے تاہم 2.5ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے فروخت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 130ملین ڈالر کی فوجی امداد کو روک دینا ” ایک ہلکی چپت لگانے سے زیادہ کچھ نہیں "ہے۔مصر نے حالیہ برسوں میں حکومت کے ناقدین کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں اور ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔مصر میں گرجا گھروں پر بم حملے اور قبطی مسیحیوں پر حملوں، جن میں 100سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، کے بعد اپریل 2017 سے ہی ایمرجنسی نافذ ہے۔ ایمرجنسی کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ کسی بھی شخص کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے اور مشتبہ افراد کے خلاف تیزی سے کارروائی کی جاسکتی ہے۔