روسی حملے کے خدشات، جانسن کی یوکرینی صدر سے ملاقات

کیف/لندن ،فروری۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے کے خدشات کے پیش نظر یوکرینی صدر سے بات چیت کیلئے یوکرین کے دورہ پر کیف پہنچ گئے۔ ان کا یہ دورہ یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی سے ملکر روس کے ساتھ کشیدگی کا سفارتی حل تلاش کرنے اور مزید خونریزی سے بچنے کیلئے ہے۔ روس نے یوکرین کی سرحدوں پر تقریباً 100000 فوجی ٹینکس، آرٹلری اور میزائل پہنچا دیئے ہیں لیکن روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس کی تردید کی ہے کہ روس حملے کی پلاننگ رکھتا ہے۔ تاہم ان کی حکومت نے یوکرین کو یہ دھمکی دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ وہ نیٹو میں شمولیت کی جانب مزید کوئی پیش قدمی نہ کرے کیونکہ اس سے روس کی اپنی سلامتی کو خطرہ ہے۔ امریکہ نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے اور مغربی ملکوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس نے حملہ کیا تو اس صورت میں اس کے خلاف پابندیوں میں توسیع کر دی جائے گی۔ برطانوی فارن سیکرٹری لز ٹرس نے کہا کہ روسی صدر مسٹر پیوٹن سے تعلق رکھنے والے وسیع تر بزنسز اور انفرادیوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے جبکہ ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی پابندیوں کا مطلب ہے کہ کریملن کے قریبی لوگوں کا انٹرنیشنل فنانشل سسٹم سے رابطہ منقطع کر دیا جائے گا۔ بورس جانسن کے یوکرین کے دارالحکومت کیف کے دورے سے قبل برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستحکم حمکرانی کے فروغ اور روس سے آزاد انرجی کیلئے88 ملین پونڈ دے رہی ہے۔ کیف روانگی سے قبل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ یہ ہر یوکرینی کا حق ہے کہ وہ اس کا تعین کرے کہ وہ ان کی حکمرانی کس طرح کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوست اور جمہوری پارٹنز کی حیثیت سے برطانیہ یوکرین کو تباہ کرنے کی کوشش کرنیوالوں کے مقابلے میں یوکرین کی سلامتی اور خودمختاری کو برقرار رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ پیچھے ہٹے اور تنازع کا ایک سفارتی حل تلاش کرنے اور مزید خوں ریزی سے بچنے کیلئے بات چیت میں شامل ہو۔ بورس جانسن نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں مسٹر پیوٹن سے بھی بات کریں گے۔ برطانوی فارن سیکرٹری لز ٹرس کو بھی وزیراعظم کے ساتھ یوکرین کے دورے پر جانا تھا لیکن انہوں نے پیر کو اعلان کیا کہ انہیں کوویڈ تشخیص ہوا ہے اور انہوں نے سیلف آئسولیشن اختیار کر لی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے ماہ میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے واضح خدشات ہیں۔ پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور امریکی سفیروں کے درمیان تلخ جھڑپیں ہوئیں، جب امریکہ نے یوکرین کے ساتھ ماسکو کی جانب سے روسی فوجوں کے اجتماع پر بات کرنے کیلئے اجلاس بلایا۔ امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ یورپ میں یہ کئی دہائیوں میں سب سے بڑی فوجی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے اور کسی حملے کی صورت میں اس کے نتائج انتہائی خوف ناک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ یقین رکھتا ہے کہ اس تنازع اور کشیدگی کا سفارتی حل نکل سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ امریکہ نے متنبہ کیا کہ اگر یوکرین پر کوئی لشکر کشی کی گئی تو صورت حال خطرناک اور تباہ کن ہو سکتی ہے۔ تاہم روسی ہم منصب ویسلی نیبنزیا نے امریکہ پر ہسٹیریا کو ہوا دینے اور روس کے معاملات میں ناقابل قبول مداخلت کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ روس یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ روسی سفیر نے مزید کہا کہ روس اکثر اپنی سرزمین پر فوج تعینات کرتا ہے اور اس میں واشنگٹن کی مداخلت کا کوئی کام نہیں ہے۔ دریں اثناء علاقے میں بحران کو کم کرنے کی سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے پیر کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے فون پر بات کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بعد میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ روس کی خواہش ہے کہ مغرب یہ وعدہ کرے کہ یوکرین کبھی نیٹو میں شامل نہیں ہوگا جو کہ ایک فوجی اتحاد ہے جس کے ارکان مسلح حملے کی صورت میں دوسرے کی فوجی مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ روس ایسٹرن پورٹ میں نیٹو فوجیوں کی موجودگی کو اپنی سلامتی کیلئے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے لیکن امریکہ روس کے اس مطالبے کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طویل عرصے سے یہ استدلال کر رہیہیں کہ امریکہ نے سوویت یونین کے انہدام کے تناظر میں 1990 کی گارنٹی کو توڑا ہے کہ فوجی اتحاد نیٹو ایسٹ میں مزید توسیع نہیں کرے گا۔ تاہم جو وعدہ کیا گیا تھا تشریحات اس سے مختلف ہیں۔ نیٹو کے 30 اراکان میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ سابق سوویت ریاستیں لتھوانیا، لٹویا اور اسٹونیا شامل ہیں، جن کی سرحدیں روس کے ساتھ ملتی ہیں۔ ماسکو کی فورسز نے 2014 میں یوکرائن کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ اس کے فوری بعد ایسٹرن ڈونابس ریجن کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے والے باغیوں کی پشت پناہی بھی کر رہا ہے۔ جہاں لڑائی میں تقریباً 14,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Related Articles