جموں کشمیر کے زعفران پیدا کرنے والے کسانوں اور ان کی پیداوار کے داموں میں اضافہ ہوا ہے
نئی دہلی، ستمبر۔ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے آج کہا کہ حکومت کی پالیسیوں اور تکنیک کے بدولت زعفران کی زراعت کرنے والے کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوگئی ہے۔مسٹر تومر نے فکی کی جانب سے منعقدہ 10 ویں ایگرو کیمسٹری کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہاکہ جموں کشمیر کے زعفران پیدا کرنے والے کسانوں اور ان کی پیداوار کے داموں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب زعفران کے دام ایک لاکھ روپے فی کلو گرام سے بڑھکر دو لاکھ روپے فی کلو گرام ملنے لگے ہیں۔ ایسا وہاں زعفران پارک کے قیام، نئی تکنیک اختیار کرنے، گریڈنگ، برانڈنگ اور پیکجنگ کرنے کے سبب ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے کاہ کہ کسانوں کی آمدنی دو گنی ہونے کی ایسی کئی مثالیں ہیں اور آنے والے وقت میں آمدنی دوگنی کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔انہوں نے کہاکہ کھیت میں کیمیائی کھاد کے استعمال سے پیداوار میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ضرورت سے زیادہ استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔ کیمیائی ، نامیاتی اور قدرتی کاشتکاری کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص فطرت کے خلاف جاتا ہے تو اس کے نتائج بھی اسے بھگتنا پڑتے ہیں۔ زراعت میں کیمیکلز سے یکسر دوری مناسب نہیں ہے۔ کسانوں کو کیمیکل کے ساتھ نامیاتی کاشتکاری پر بھی زور دینا چاہیے۔ مسٹر چند نے کہا کہ زمانہ نامیاتی کا ہے اور انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کیمیائی اور نامیاتی کاشتکاری ایک ساتھ کرنے پر زور دے رہی ہے۔ میک اپ کاسمیٹکس میں بھی خواتین کیمیکلز کا کم سے کم استعمال چاہتی ہیں۔ انہوں نے کیمیکل کے مضر اثرات کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے جس سےاس سے وابستہ صنعتوں کو خطرہ ہو۔ انہوں نے زرعی پیداوار بڑھانے میں کیمیکلز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سبز انقلاب کے دوران جپسم کے استعمال کی وجہ سے ریگستانی زمین میں فصلوں کی اچھی پیداوار ہوئی تھی ۔ کھیتی میں کیمیائی مادوں کے بہتر نتائج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیجوں میں کیمیکل کا استعمال اچھا ہوتا ہے ، پودوں میں بیماری نہیں لگتی اور غذائی اجزاء کا بہت اچھا فائدہ ملتا ہے ۔ کٹائی سے پہلے اور بعد میں کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے۔مسٹر تومر نے کہا کہ زراعت کے شعبہ ملک کی معیشت کے لئے کافی اہم ہے، جس نے ناموافق حالات میں بھی اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔ کووڈ بحران کے وقت بھی زرعی شعبہ کا کام کاج بہتر رہا ہے ، زرعی بنیادوں پر چلنے والی صنعتوں کی حالت بھی کم و بیش تسلی بخش رہی ہے۔ اس علاقے کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ زراعت کا شعبہ مضبوطی سے ترقی کرے اور ملک ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے سپلائی کرنے میں بھی ہندوستان اہل بنا رہے۔ ہماری سوچ ’’وسودھیو کٹمبکم‘‘ پر مبنی ہے۔ ملک اسی جذبے سے ترقی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان زیادہ تر زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ملک اس سمت میں مسلسل آگے بڑھتا رہے۔ زرعی پیداوار کی برآمد میں بھی ہندوستان دنیا میں پہلے 10 مقام میں شامل ہو چکا ہے ،اس صورتحال کو بھی مزید آگے بڑھانے کی خواہش کسانوں اور ملک کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ زراعت کی طرف دلچسپی بڑھے اور کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو۔ کئی اسکیموں کے ذریعے اس سمت میں کام کیا جا رہا ہے۔ پردھان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم کسان) اسکیم کے تحت اب تک 11.37 کروڑ کسانوں کو 1.58 لاکھ کروڑ روپے براہ راست ان کے بینک کھاتوں میں جمع کرائے گئے ہیں۔ جہاں کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) کے ذریعے کسانوں کو قرض کی مدد فراہم کی جا رہی ہے ، وہیں علاقے ایک لاکھ کروڑ روپے کے تاریخی ایگریکلچر انفرا اسٹرکچر فنڈ کے ذریعہ شعبے کے بنیادی ڈھانچے کی کمیوں کو پورا کیا جا رہا ہے۔مرکزی وزیر نے کہا کہ عام لوگوں اور نئی نسل کی دلچسپی زراعت کی طرف بڑھنے ، کاشتکاری منافع بخش بنے ، کسان مہنگی فصلوں کی طرف راغب ہوں ، زراعت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا ہوں ، کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوں۔